مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
سانحہ مستونگ و کوئٹہ
۲۰ ستمبر کو بلوچستان کے شہر مستونگ میں ایران جانے والی ایک بس سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے زائرین کو اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ زائرین شیعہ برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس کے بعد اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ۴ اکتوبر کو پیش آیا جب ایک بس پر فائرنگ کر کے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ۱۵ مزدوروں کو قتل کر دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق لشکر جھنگوی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ اس واقعے پر "العارف” کے علاوہ کسی بھی جریدے نے اپنے اداریے میں اظہار خیال نہیں کیا۔ "العارف” نےجو مضمون شائع کیا ہے اُس میں اس واقعے کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ پاکستانی ایجنسیوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔
مضمون نگار آئی ایچ ناصر رقم طراز ہے کہ” لشکر جھنگوی کی طرف سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہ ہونا، نیز بلوچستان میں انٹیلی جنس کے اتنے مضبوط نیٹ ورک کے ہوتے ہوئے اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں اہم ذمہ داریوں پر فائز حضرات عالمی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ ایک وقت میں ایران سے بھاگنے والے عبد المالک ریگی اور اس کے گروہ کو مدد فراہم کرنے والےہیں و ہی لشکر جھنگوی کے نام پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے والوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں”[19]۔
جواب دیں