مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء
معاشی مسائل
رواں دوماہی میں ملک میں چینی کی قیمت میں اضافہ اور اس کےحصول میں دقت کے ساتھ ساتھ بجلی اور پٹرولیم مصنوعا ت کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان رہا ۔ دینی جرائد میں اس حوالے سے تبصرے اور تجزیے شائع ہو ئے ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے ہاں اس صورتحال پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے ،اور جرائد اشیائے خورونوش اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ان کے حصول میں مشکلات کو حکومت کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں ۔
”حق چار یار”نے یوٹیلٹی سٹوروں پر آٹے اور چینی کےحصول کے لیے طویل قطاروں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ”حکومت کا فرض ہے کہ وہ رسد کو بہتر اور ذخیرہ اندوزوں پر قابو پاکراشیاء صرف کی قیمتوں کوقابو میں کرے،کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث یہ اشیاء غریب آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں ”۔
”کاروان قمر” نےافسوس کا اظہار کیا ہے کہ ہم زرعی ملک کے باشندے ہیں اور ہمیں گندم کے لیے مارے مارے پھرنا پڑتا ہے ۔ ہمارے کھیت گنے کی فصل سے بھرے پڑے ہیں اور ہم چینی کے حصول کے لیے قطاورں میں بے یارومددگار ہیں ۔ جریدہ موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں کا احساس کرے، عیش وعشرت کو چھوڑ کر محنت، خدمت اوردیانت کواپنا شعاربنائے۔ ”الاعتصام ”نے حکو مت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ترقیاتی سکیمیں روک دے ، اور تمام سود آور تجارتی قرضوں کی بجائے عوام کو سامان خوراک ، ادویات ، لباس اور ایندھن میں سبسڈی دے کر حق حکمرانی ادا کرے۔
بجلی بحران کے حوالے سے کالاباغ ڈیم کے بارے میں حکومتی فیصلے کا ذکر کرنے کے بعد ‘‘اہلحدیث” لکھتاہے” نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسی معاشی حماقتیں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب کہ ملک میں افراط زر میں اضافے ،بیروزگاری، برآمدات و صنعتی نمو میں کمی ، غیر پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور لوڈ شیڈنگ کی بنا پر نئے معاشی بحران جنم لے رہے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ حکمرانوں کو ابھی تک معاشی بے تدبیریوں کے اثرات کا پوری طرح ادراک نہیں ۔ جریدہ اپنی ۱۵ سے ۲۱ جنوری کی اشاعت میں تعجب کا اظہا ر کرتے ہو ئے لکھتا ہے ” حیران کن بات ہے کہ اراکین پارلیمنٹ عوامی مشکلات اور مہنگائی کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔ ۱۹ سے ۲۵ فروری کی اشاعت میں جریدے میں شائع شدہ مضمون میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کی پالیسی کا حوالہ دیا گیا ، مضمون نگار کے خیال میں مالی لحاظ سے مستحکم ممالک کے اعتبار سے تو یہ پالیسی ٹھیک ہےلیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس طرح کی پالیسیوں سے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے ۔ [25]
جواب دیں