مباحث مئی ۲۰۱۰ ء
متفرق موضوعات
مدیران دینی صحافت کی سہ روزہ ور کشاپ : اقوام متحدہ کے ادارے( Civilizations Alliances of ) کے تحت ۱۲ تا ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۹ء بھوربن( مری) میں دینی صحافت کے مدیرا ن کی سہ روزہ ورکشاپ کا انعقاد ہو ا جس میں ملک کے معروف جرائد ایشیا ، الشریعہ ، الاعتصام ، عرفات ، ترجمان القرآن ، الخیر ، السعید ، منہاج القرآن ، میثاق ، پیام ،اور وائس آف پیس ، الحق، ندائے خلافت ، صحیفہ اہلحدیث، ضیائے حرم کے مدیران و ذمہ داران شریک ہو ئے ، تاہم "محدث” کے مطابق البلاغ ، بینات ،اسلا م ، الفاروق،حرمین ، جرار ، اور طیبات کے مدیران بوجوہ شریک نہیں ہو سکے ۔ اس ورکشاپ کا مقصد دینی صحافت کے مسا ئل کا ادراک ،درکا ر صلاحیتوں کا فروغ ، دینی صحا فت کی ضروریا ت کی تکمیل او ر خصوصی مہارتوں کا فروغ تھا۔جریدے نے اس ورکشاپ کے مشتملات کا جائزہ لیتے ہوئے ورکشاپ کو انتظامی اعتبار سے نہایت بھرپور قرار دیا تاہم اس کے اغراض ومقاصد پر تبصرہ کرتے ہو ئے جریدہ لکھتا ہے ” ورکشاپ میں بیان کردہ موضو عات اور اہداف کے بین السطورمیں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ زاویہ فکر کی تبدیلی، مغرب بالخصوص امریکہ کے بارے میں سافٹ کارنر (نرم گوشہ) پیدا کرنے کی کوشش ، اشارہ کنا یہ سے ان کا مو قف بیان کرنا اور مغرب میں ہونے والی مادی ترقی کو سامعین کے اذہان میں انڈیلنا تھا "۔ [33]
میڈیا اور ضابطہ اخلاق : الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کے حو الے دینی جرائدمیں تبصرے اور تجزیے شائع ہو تے رہتے ہیں ۔ رواں دوماہی میں بھی اس حوالے سے کچھ تبصرے سامنے آئے ہیں ۔”نداء الجامعہ ” کراچی نے معروف صحا فی آفتاب اقبال کےدنیا ٹی وی چینل پرنشر ہونے والے پروگرام "حسب حال”(جس میں فرضی کرداروں کے ذریعے ملکی سیاست اور حالات وواقعات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ) پرتنقیدی تبصرہ کیا ہے ۔ جریدے کی رائے میں "میڈیا کی آزادی کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بہت ساری ایسی خبریں جو منظر عام پر نہیں آ سکتی تھیں اب وہ باآسانی عوام کے سامنے آجاتی ہیں ۔۔۔لیکن صحافت کے بنیادی مقاصد تعلیم دینا ، تفریح فراہم کرنا اور سب سے اہم ضابطہ اخلاق کی پابندی کرناہے جبکہ ہمارے ہاں ضابطہ اخلاق کی پابندی نہیں کی جاتی اور یہ اس کا سب سے تاریک پہلو ہے”۔”حسب حال ” پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے جریدہ لکھتاہے ” اگر یہ سارا کام ضابطہ اخلاق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جا ئے تو کم ازکم نئی نسل کا اخلاق بگڑنے سے بچ جائے”۔[34]
” اسوہ حسنہ ” نے سندھ حکومت کی طرف سے حر تحریک کے رہنما صبغت اللہ شاہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شائع کیے گئے اشتہا ر میں ہندی لفظ”آدرشی” کے استعما ل پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انتہا ئی تشویشناک امر اور مستقبل کے حوالے سے پر خطر قرار دیا ۔ جریدہ لکھتاہے "معلوم نہیں کہ متعلقہ حکام نے اس لفظ کو جان بوجھ کر استعما ل کیا یاپھر نادانی میں یہ غلطی سرزد ہو گئی ، یہ امر انتہائی تشویشناک اور مستقبل کے حو الے سے پرخطر ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کے منہ زور گھوڑے کو لگا م ڈالی جائے اورقومی زبان اور اسلامی روایات کے تحفظ کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے وگرنہ ہماری اسلامی روایات سے نسل نو بے گانہ اورلاپروا ہو جائے گی "۔ [35]
وفاق المدارس العربیہ کا کنونشن : وفاق المدارس کے تحت "تحفظ و خد مات مدار س دینیہ کنو نشن” جامعہ فاروقیہ شجاع آباد میں ۴ فروری ۲۰۱۰ء کو منعقد ہو ا ۔ ماہنامہ "وفاق المدارس ” نے اس کنونشن کی رپو رٹ شائع کی ہے۔اس کنونشن میں جو قرادادیں منظور کی گئی ان میں (ا)پاکستان میں قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی (ب)مدارس کے خلاف منفی پرپیگنڈے اور چھا پو ں کا خاتمہ (ج) نبی کریم ﷺ کی توہین پر مبنی خاکوں کی اشاعت پر پو ری دنیا میں پابند ی کا مطالبہ (د)سوئٹزر لینڈ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی اور فرانس میں حجاب پر پابندی کی مذمت او ر (ہ) وفاق المدارس کو دینی مدارس کا سب سے بڑا بورڈ ہونے کے ناطے مدارس کے بارے میں کسی بھی حکومتی فیصلے میں شامل کیے جانے کا مطالبہ شا مل ہے ۔ رپورٹ کے مطابق کنو نشن سے خطاب کرتے ہو ئے بورڈ کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا”عصری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے تاکہ وہاں بھی صحیح العقیدہ مسلمان پیدا ہوں ۔۔۔ میٹرک تک دنیاوی تعلیم کے تما م اداروں میں اردو زبان میں یکساں نصاب تعلیم ہو نا چاہیے "، انہوں نے یہ بھی کہا ” ہم عورتوں کی تعلیم وترقی کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم خود طلبا ء کی نسبت طالبات کو زیادہ تعلیم دے رہےہیں”۔[36]
ویلنٹائن ڈے : ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے "محدث”نے مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کے خیال میں ویلنٹائن ڈے جدید یورپ کی تہذیبی گمراہی اور ثقافتی بے اعتدالیوں کا شاخسانہ ہے ۔ وہ لکھتےہیں "بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ ویلنٹائن ڈے کے نا م پر نوجوان نسل کو بے راہ روی اور بے ہودہ عشق بازی کے مشاغل میں مبتلا کرنے میں مصروف نظر آتا ہے ۔۔ جو لوگ اس دن کو محبت کا تہوار بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسے منانے میں کو ئی اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتے وہ حقائق سے چشم پو شی کر رہے ہیں "۔مضمون نگا ر لکھتے ہیں ” مغرب کی طرف سےدرآمد کردہ ویلنٹائن جیسے فحش انگیز بے ہودہ تہوار پاکستا ن جیسے اسلامی ملک کی تہذیب و ثقافت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں ان تہواروں کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی کے لیے حکومت پاکستان کو بھر پور اقدامات کرنے چاہئیں”۔[37]
بسنت: موسم بہارکی آمد پر خوشی کے اظہا ر کے لیے منائے جانے والے بسنت کے تہوار کے حوالے سے "اہلحدیث”نے ادارتی نو ٹ تحریر کیا ہے۔جریدے نے اپنے تجزیے میں اس خیال کی تردید کی ہے کہ بسنت ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے اور اس کا مذہب اور قوم سے کو ئی تعلق نہیں ۔ جریدہ لکھتا ہے ” تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ بسنت ہندوؤ ں کا تہوار ہے ۔۔۔ مسلمانوں کا اس تہوار کو منانا کسی طرح جائز نہیں ” نیز جریدہ بسنت منانے والوں سے گلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” کیا بسنت منانے والو ں کو ملک کے معاشی ، سیاسی ، مذہبی اور بین الاقوامی مسائل نظر نہیں آتے ؟ ایسے موقع پر گورنر پنجاب کا یہ کہنا کہ بسنت لاہورکا ثقافتی تہوار ہے،محل نظر ہے”۔ [38]
جواب دیں