مباحث مئی ۲۰۱۰ ء

مباحث مئی ۲۰۱۰ ء

پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات

پاکستان اور امریکہ کے مابین  مارچ کے اواخر میں اسٹریٹجک مذاکرات  واشنگٹن میں منعقد ہو ئے،ان مذاکرات  میں پاکستان  کی نمائندگی  وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کی ۔ مذاکرات میں  باہمی  دلچسپی کے فوجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات زیر بحث آئے ۔   وورے پر گئے پاکستانی وفد نے مذاکرات کو دورس اور مثبت نتائج  کے حامل قرار دیا۔ دینی جرائد میں ان مذاکرات کےحوالے سے سامنے آنے والی رائے سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ دینی جرائد ان مذاکرات کو پاکستا ن سے زیادہ امریکی مفادات کی آبیاری خیال کرتے ہیں اور وہ پاکستانی حکام کے مذاکرات کو کامیاب قرار دینے کے دعویٰ کو خام خیالی سمجھتے ہیں ۔

"ضرب مومن”دونوں ملکوں کے درمیان کوئی جوہری معاہدہ طے نہ پانےپر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” پاکستانی وفد کی طرف سے اس بات کا غلغلہ تھا کہ امریکہ بھارت کی طرز پر پاکستان کے ساتھ سول جوہری معاہد ہ پر آمادہ ہو جائے گا تاہم یہ  بھارت کے دباؤ کا نتیجہ تھا یا کچھ اور مذاکرات اس ایشو سے خالی رہے ” البتہ جریدے نے وزیرخارجہ کے بیان[39] کو جراتمندانہ قرار دیا کہ یہ ریمارکس اس حوالے سے قابل تعریف ہیں کہ ماضی میں اس طر ح کی جرات کا مظاہرہ کہیں نہیں ملتا ۔ تاہم جریدے نے واضح طور پر لکھا ” ایسے مذاکرات جن میں نہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ایشو اٹھایا گیا ، نہ ڈرون حملے روکے جاسکے ، اسکریننگ پالیسی پرنظر ثانی کا محض دعدہ کیا گیا ہو اور طالبان کو بھارت سے بڑاخطرہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہو ، پاکستان کے لیے کیسے سود مند ہو سکتے ہیں؟ ، لہذا پاکستان کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کو مذاکرات کی کامیابی کے اعلان سے گریز کرنا چاہیے "۔[40]

"نوائے اسلام "اس سلسلے میں اپنے تبصرے میں لکھتا ہے "اگر بغور ان مذاکرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستانی حکام نے سول ایٹمی ٹیکنالوجی او ر ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول ، امریکی ویورپی منڈیوں تک آسان رسائی ، تجارت کے فروغ اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو ترجیح دی تھی مگر ان میں سے کسی بھی نکتہ پر ٹھوس پیشرفت نہیں ہو سکی ۔۔۔پاکستانی حکام کو ان مذاکرات سے اندازہ ہو جا نا چاہیے کہ امریکہ ان کا کتنا خیر خواہ ہے ، لہذا اب بھی وقت ہے کہ امریکا کی جھوٹی تسلیوں سے جان چھڑائی جائے ، اور ہزاروں میل دور بیٹھے نام نہاد دوست کی بجائے پڑوسی ممالک سے تعاون کو فروغ دیا جائے "۔[41]

"ندائے خلافت ” کاخیال ہے کہ یہ مذاکرات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے مزید  تعاون کے حصول کے لیے منعقد کیے جارہے ہیں ، چنانچہ جریدہ لکھتاہے ” مذاکرات اس نقطے پر ہو رہے ہیں کہ ظلم ، جبر اور جھوٹ کا ساتھ دینے کے لیے اتنا نہیں ، اتنا لیں گے ۔کم لینا حکومت پاکستان کی ناکامی ہو گی اور زیادہ لینا کامیابی ٹھیرےگی "۔[42] امریکہ کی نئی اسکریننگ پالیسی کے تحت جامہ تلاشی دینے سے انکار کرتے ہوئے واپس آنے والے فاٹا اراکین کے حو الے سے بات کرتے ہوئے ” ضرب مومن ” لکھتا ہے  "مغربی ممالک ایک جانب فرینڈز آف پاکستان فورم تشکیل دے کرپاکستان سے اپنی نادیدہ محبت کا اظہا ر کرتے ہیں  تو دوسر ی جانب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اسکریننگ پالیسی  میں امتیازی رویہ رکھتے ہوئے اپنے بغض کو چھپانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔۔۔حکو مت کو چاہیے کہ فاٹا اراکین کی بلند ہمت کو آگے بڑھائے اور اس مسئلے پر اسٹینڈ لے کر امریکہ کو قانون بدلنے پر مجبور کرے "۔[43]

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے