مباحث مئی ۲۰۱۰ ء
پاک بھارت مذاکرات اور آبی تنازعہ
پاک بھارت خارجہ سیکریٹریوں کی سطح کے مذاکرات۲۵ فروری ۲۰۱۰ء کو بھارت کے شہر نئی دہلی میں منعقد ہوئے ، پاکستان کی نمائندگی خارجہ سیکرٹری سلمان بشیر نے کی ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اگرچہ ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تاہم مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقا ت کے حوالے سے انہیں درست سمت میں مثبت قدم قرار دیا جارہا ہے ۔دینی جرائدنے دونوں ملکو ں کے مابین حالیہ مذاکرات سمیت دونوں ممالک کے درمیان جاری آبی تنازعہ پر اظہار خیال کیاہے ،جس میں پاکستانی حکام کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔
"الجامعہ”نے ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے مابین ہونے والے ان مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا ہے ، تاہم جریدہ بھارت کے رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے "امریکی حلقو ں کی جانب سے بھارت پر واضح کیا گیا کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو صرف تعمیراتی کاموں تک محدود اور شفاف رکھے ۔ ساتھ ہی اسے فاٹا اور بلوچستا ن میں اس کے کردار سے بھی آگا ہ کیا گیا ، اس صورت حا ل میں بھارت بڑی حد تک تنہا ہو تا جا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس صورت حال سے نکلنے کے لیے اس نے اسلام آباد سے مذاکرات شروع کرنے کا راستہ اختیا ر کیا ہے ، بہر حال ان مذاکرات کا ایجنڈا بھا رت کے من پسند موضو عا ت تک محدود نہیں رہنا چا ہیے بلکہ ان میں دونوں ملکوں کے دیرینہ مسائل کے حل کی طرف بھی پیش رفت ہو نی چاہیے "۔[44]
"نوائے اسلام "کےخیا ل میں بھا رت کی جانب سے جامع مذاکرات سے انکار کے باعث کو ئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ۔ جریدہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر لگا ئے گئے دہشت گردی کے الزاما ت کے جو اب میں لکھتا ہے "بھارت کی جانب سے ایک ایسے ملک پر دہشت گردی کا الزام لگا نا جو خود دہشت گر دی کا شکا ر ہے غیرحقیقی اور ناانصافی کے مترادف ہے ۔۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت پاکستان پر الزامات کی گردان چھوڑ کر مسائل کے حل کی طرف آئے”۔[45] "دعو ت تنظیم الاسلام ” کے خیا ل میں اگر مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر اور پانی کا مسئلہ شا مل ہی نہیں تو پھر "مذاق رات ” کے اس بھا رتی جا ل میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ،جنگ گروپ آف پاکستان اور ٹائمز آف انڈیا کی طرف سے امن کی کوشش کے سلسلے میں شروع کیے گئے "امن کی آشا” پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے جرید ہ لکھتا ہے ” طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ "امن کی آشا” کے اس ایجنڈے کے جتنے موضو عا ت ہیں وہ تمام بھار ت سے متعلقہ ہیں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو پاکستا ن کی حمایت کا ہو یا اس سے پاکستان کی بہتری کا کوئی پہلو نکلتا ہو ۔اس میں تنازعہ کشمیر اور بھارت کی آبی دہشت گردی کا ذکر تک نہیں ہے”۔[46]دونوں ممالک کے درمیان جا ری آبی تنازعہ کے ضمن میں سند ھ طاس واٹر کو نسل کے چیئرمین حافظ ظہور الحسن ڈاہر کے اس بیان جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستانی دریاؤں پر ۶۲ ڈیم تعمیر کر چکا ہے ،پر تبصرہ کرتے ہو ئے "ضرب مومن” لکھتا ہے ” شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکو مت نے سیاسی محاذ آرائیوں سے ہٹ کر کچھ اس جانب بھی توجہ دینی شروع کر دی ہے ۔۔۔ وزیر خارجہ کو چاہیے کہ بھارت سے ہر صورت پانی لینے کی بات کو عملی شکل دیں ،اپنا مقدمہ دنیا کے تمام ممالک کے سامنے بہتر انداز میں پیش کریں ۔ جریدہ حکو مت کو مشور ہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” ضرورت اس با ت کی ہے کہ پاکستا نی سلامتی کے ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسی حکمت عملی ترتیب دیں کہ لاتوں کا بھو ت بھی مان جائے اور خطہ کسی بڑی جنگ، کشیدگی اور بد امنی سے بھی محفوظ رہے”۔[47] "کاروان قمر” اسی ضمن میں بھارت پر الز ام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے ” ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارا پانی روک کر پاکستان کی توانائی ختم کرنا چاہتا ہے ، ہماری زراعت اور معیشت تباہ کرنے پر تلا ہے ،اور سلامتی اور دفاع پر ضرب کا ری لگانا چاہتا ہے ،جریدے نے (ر) جنرل حمید گل کے اس بیان (پانی صرف ہماری معیشت کا ہی نہیں ہما رے دفاع کا بھی معاملہ ہے ) اور چیف ایڈیٹر نو ائے وقت مجید نظا می کی طر ف سے حکمر انوں کو اس خطر ے سے بر وقت آگاہ کرنےکو نہایت خوش آئند اقدام قرار دیا ۔[48] ” اہلحدیث” اس ضمن میں لکھتا ہےکہ ” اگر جموں کشمیر پر بھا رت کا قبضہ چند سا ل تک برقرار رہا تو وہ پاکستان آنے والے ہر دریا پر بند باندھ کر پانی روک لے گا اور پاکستا ن کو صحرا بنا کر قحط کا شکا ربنا دے گا ، ایسے حالات میں کشمیریو ں کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی امداد نہایت ضروری ہے "۔[49]
ترکی کے صدر عبداللہ گل کے دورہ پاکستان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ سعودی عرب کے مو قعہ پر ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کا حوالہ دیتے ہوئے ” ضرب مومن” لکھتا ہے ” ترکی اور سعودی عرب کی اس سلسلے میں پیشکشیں پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں توقع رکھی جا سکتی ہے کہ اگر بات چیت ان دو برادراسلامی ممالک کی ثالثی میں چل نکلے تو نتیجے تک بھی پہنچ جا ئے اور دونوں طرف کے مسلما ن چین اور سکھ کا سانس لیں "۔[50]
جواب دیں