مباحث مئی ۲۰۱۰ ء
میلاد النبیﷺ کے مو قع پر فیصل آباد میں تصادم
مسلما نوں کےہاں ربیع الا ول کا مہینہ پیغمبر اسلامﷺ کی ولادت کی نسبت سے قابل احترام سمجھا جاتا ہے ۔ اس مہینے کی ۱۲ تاریخ کو خوشی کے دن کے طور پر منانے کے حو الے سے خود اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کا اظہا ر بھرپو ر طریقے سے سامنے آ تا ہے ۔ جبکہ اس دفعہ۱۲ ربیع الاول ۱۴۳۱ ھ (بمطابق ۲۷ فروری ۲۰۱۰) کویہ اختلاف تشدد کی صورت میں سامنے آیا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آبا د میں میلاد کے جلوس پر فائرنگ کے الزام پر مشتعل افراد نے دیوبند مسلک کے مولانا زاہد قاسمی کے مدرسے اور گھر پر دھاوا بو ل دیا ، اس مو قع پر ہونے والے پرُتشددواقعات میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو ئیں اور املاک کو نقصا ن پہنچا ۔ اس واقعہ کے بعد ویوبندی او ر بریلوی فرقے کے علماء کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگا ئے گئے ۔ دینی جرائد میں اس حوالے سے سامنےآنے والی آراء میں مسلکی جھلک پوری طرح نمایاں ہے ۔
فیصل آباد سے شائع ہونے والے دیوبندی جریدے ماہنامہ”نورٌ علیٰ نور”نے اس واقعہ کو دیوبندی بریلوی منافرت کو ہو ادینے کی خفیہ کوشش قرار دیا ۔ جریدے نے بطور خا ص وہاں سے مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم [1]پر منافرت کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہو ئے تنقید کی ہے ۔جریدے کے مطابق میلاد النبی ﷺکے جلوس پر مولانا زاہد قاسمی اور ان کے رفقا ء کی طر ف سے فائر نگ کی اطلاعات بے بنیاد ہیں اور یہ معاملہ مبینہ طور پر فیصل آباد میں حضرت امیر معاویہ ؓ اور سند ھ میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے پتلے جلائے جانے کے واقعات کے خلاف مولانا زاہد قاسمی کے احتجاج کا رد عمل تھا جسے میلادالنبی ﷺ کے جلوس کے ذریعے فساد پھیلاتے ہوئےعملی جامہ پہنایا گیا ۔ا س مو قع پرمسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی فضل کریم کنڈ ی کےبارے میں جریدہ لکھتا ہے ” فضل کریم نے اپنی سیاسی حیثیت اور جماعت مسلم لیگ (ن )کی شہرت کا کوئی خیال نہ کیا اور فیصل آبا د میں مذہبی جلوسوں کی آڑ میں بریلوی دیوبندی جنگ شر وع کروادی”جریدہ مزید لکھتا ہے "۱۲ ربیع الاول کی آڑ میں فیصل آباد میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اسکی مثال پاکستا ن کی تاریخ میں نہیں ملتی ، آئندہ ایسی صورتحا ل سے بچنے کے ایسے جلوس جن کو مخالفین اپنے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں روک دیا جائے یا ان کا روٹ متعین کیا جا نا چاہیے”[2] ۔ "ضرب مومن ” نے اس ضمن میں لکھا ہے” حالات و اضح کررہے ہیں کہ بظاہر نظر آنے والے فریقین کسی تیسری طاقت کی سازش کا شکا ر ہیں”۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے بیان جس میں انہوں نے ان واقعات کو فرقہ واریت کو ہو ا دینے کی سازش قرار دیا پر تبصرہ کرتے ہو ئے جریدے نے اطمینان ظاہر کیاہے کہ حکومت بھی غیر جانبداری کے ساتھ صحیح زادیوں پر سوچ رہی ہے ۔[3]
دوسری جا نب بریلوی جریدے ” ضیائے حرم ” نے دیوبند مسلک کے علماء پر تنقید کی ہے کہ "دیوبندی مکتب فکرکے انتہا پسند مقررین نے پورے ملک میں پروپیگنڈہ کیا اور حضورﷺ کی ولادت کے دن کے حوالے سےلوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کیے ،ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے اس سال میلاد النبی ﷺ جلوس کے شر کاء کی جانیں ضائع ہوئیں اور غیر مسلموں کو یہ پیغام ملا کہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کے بارے میں علمی خلفشار کا شکار ہیں "۔ جریدے نے حکو مت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے اور ان علماء کا بھی محاسبہ کرے جو میلاد کے جلوسوں کو شرک وبدعت کہتے ہیں۔[4]
شیعہ مکتب فکر کے ہفت روزہ "نوائے اسلام” نے اس سارے واقعہ کی ذمہ داری دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پر ڈالی ہے ۔ جریدہ لکھتاہے ” کالعدم دہشت گرد گروپ سپاہ صحابہ ماضی میں شیعہ مسلمانوں کےخلاف حملوں میں ملوث رہا ۔۔۔ فیصل آباد اور ڈی آئی خان میں میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں پر حملے کے بعد کسی کو کالعدم سپاہ صحابہ کے بارے میں مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے”۔ جریدہ حکو مت کو مشورہ دیتا ہے کہ "وہابیت کے بطن سے جنم لینے والے اس فتنے کا جتنی جلدی سر کچل دیا جا ئے اتنا اچھا ہے ورنہ فیصل آباد اورڈی آئی خان جیسے واقعات پیش آتے رہینگے "۔[5]
اس موضو ع کے علمی پہلو کا ذکر بھی بعض جرائد نے کیا ہے۔ دیوبندمکتب فکر کےماہنامہ جرائد ” الخیر "، "البلاغ "اور "حق چار یا ر”نے اس سلسلے میں مروجہ طریقوں کوغلط قرا ر دیا ہے ۔ "الخیر ” لکھتا ہے "جو لوگ ۱۲ ربیع الاول کو حضو رﷺ کی ولادت کی خوشی میں دوسری اقوام کی نقل کرتے ہوئے خوشی کے جو طریقے اختیار کرتے ہیں انہوں نے شاید کبھی بدعت کی حقیقت اور مفہوم پر غور نہیں کیا "۔”البلاغ "نے کرسمس ڈے اور یورپ میں جرائم کی شرح کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے ” ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہےکہ اظہار عقیدت کے عنوان سے منکرات اور خرافات گھڑ کر ہمارے قدم اسی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں اس وقت عیسائی دنیا کرسمس ڈے منا کر کھڑی ہے”۔ "حق چاریار” نے پیغمبر اسلام ﷺکی ولادت کے دن خو شی منانے کے حوالے سےاہلسنت دیوبند مسلک کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ” ہم ولادت شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جومن گھڑت روایات ، مردوں اور عورتوں کا اختلاط اورچراغاں وغیرہ کی صورت میں ہندو پاک میں رائج ہو گئے ہیں ۔[6] "اہلحدیث ” نے قدرے سخت رائے کا اظہا ر ان الفاظ میں کیا ہے ” کسی بھی مشہور شخصیت کا یوم پیدائش منانے کی تعلیم صرف اسلام ہی نہیں بلکہ کسی الہامی مذہب میں نہیں ملتی ۔ یہ طریقہ بت پرست معاشروں میں رائج تھا "، "ترجمان الحدیث ” نے بھی رائج الوقت طریقوںکومن گھڑت قرار دیا ہے ۔ جریدے کے خیال میں حضور ﷺ کی محبت کا حق آپ کی سنت کی توقیراور آپ کی سیرت کو اپنانے جیسے طریقوں سے ادا ہو سکتا ہے ۔[7]
"الخیر” اس موقع پر ۲۷ فروری ۲۰۱۰ ء کو حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں منعقد کی گئی قومی سیرت کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور علامہ احمد سعید کاظمی کے اس بیان کہ سیرت کانفرنس کا آغا ز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ،نیز شیعہ عا لم کی طر ف سے اٹھائے گئے اس نکتہ کو کہ حضو رﷺ کے آباء واجداد مسلمان تھے یا نہیں اور بریلوی عالم کے یہ کہنے پر کہ لفظ محمد کا عدد ۹۲ ہے اور پاکستان کاکوڈ بھی ۹۲ ہے اس کا مطلب یہ کہ پاکستان پر حضو ر کا سایہ رحمت ہے ، پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی سیرت کانفرنس کو مسلکی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش قرار دیا ۔ [8]
جواب دیں