مباحث مئی ۲۰۱۰ ء
اٹھارویں آئینی ترمیم
صدر مملکت آصف علی زرداری نے ۲۷ رکنی آئینی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان سے منظور کی گئی اٹھارویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دئیے ہیں جس کے بعد اب یہ ترمیم آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے ۔ اس حوالے سے جرائد کی زیادہ آراءآئندہ دوماہی میں متوقع ہیں البتہ بعض جرائد نے اس بار بھی اس ترمیم کے حوالے سے اظہار خیال کیا ہے جس میں اس ترمیم کی تیاری پر اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دیا گیا تاہم بعض شقوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی ملتاہے ۔
"ضرب مومن ” اس ضمن میں لکھتا ہے ” ۱۸ ویں ترمیم پر اتفاق رائے ملکی سیاسی جماعتوں اور آئینی اصلاحات کی کمیٹی کا تاریخ ساز کارنامہ ہے ۔۔۔ مختلف منشور کی حامل جماعتوں کا اس بات پر جمع ہو جانا کہ آمریت کے زمانے میں ملکی مفاد کو بالائے طاق اور ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر جاری کیے جانے والے آرڈینینسز سے آئین کا پاک کیا جانا ضروری ہے ،سیاسی بیدار مغزی کاواضح ثبوت ہے "۔[20]"العصر” کے خیال میں اگر اس ترمیم سے امن وامان کی صورت حال میں بہتری ، اقتصادی مشکلات میں کمی ہو ، امریکی غلامی سے نجات ملے ، لوٹی ہوئی ملکی دولت قومی خزانے میں واپس آئے ، اور قوم کی عزت ووقار بحال ہوتو عوام مبارک باد کےمستحق ہیں لیکن اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو پھر یہ حکمرانوں ہی کے فائدے کے لیے ہو گی ، عوام کے لیے اس میں کچھ نہیں ہو گا” ۔[21] "الشریعہ "واضح طور پرلکھتا ہے ” دستور پاکستان پر جتنی بار چاہیں نظر ثانی کر لیں ،اور جتنے بھی ترمیمی بل منظور کروا لیں ، اگر رولنگ کلاس کا رویہ ، نفسیات اور ترجیحات تبدیل نہیں ہو ں گی تو بار بار کی دستوری ترامیم سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا "۔[22]
"ندائے خلافت "کا تبصر ہ کچھ یوں ہے ” اٹھارویں ترمیم کا نہایت افسوسناک پہلو یہ ہےکہ اس میں ۱۹۷۳ کے آئین کی روح اور ملک کے اساسی نظریے کی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ اسلامی شقوں کو خارج کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اس کوشش میں اے این پی اور ایم کیو ایم سرفہرست ہیں ۔ اے این پی نے قرار داد مقاصد اورسربراہ مملکت کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کے خاتمے کے لیے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔ یہ طرز عمل اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی نہایت پست سوچ کا آئینہ دار ہے ، جو انتہائی قابل مذمت ہے "۔[23]
"اہلحدیث "نے صوبہ سرحد کے نئے نام خیبر پختونخواہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہو ئے لکھا ہے ” حکومت اسے بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ اسی صوبے کی اکثریت اس نام کو ناپسند کرتی ہے ۔ ۔۔ اس نام کا مطالبہ کرنے والوں نے دل سے پاکستان کو کبھی تسلیم نہیں کیا لہذاقیام پاکستان کے ۶۳ سال بعد صوبے کے نام کی تبدیلی کسی سازش کا شاخسانہ تو ہو سکتی ہے ، عوامی مطالبہ نہیں”۔[24]
جواب دیں