مباحث، مئی ۲۰۱۱ء
تحریک تحفظ ناموس رسالت
۲۰ نومبر ۲۰۱۰ء کو توہین رسالت کیس میں سزا یافتہ آسیہ بی بی سے سابق گورنر سلمان تاثیر کی ملاقات اور اسے سزا سے معافی دلوانے کے وعدے، پارلیمنٹ میں شیری رحمن کی جانب سے قانون توہین رسالت میں ترمیم کا بل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد ملک بھر سے تمام دینی حلقے اس قانون کے تحفظ کے لیے سر گرم ہو ئے اور ملکی سطح پر تحریک تحفظ ناموس رسالت کا آغاز کیا گیا۔ اس میں تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عمائدین شامل تھے۔ تحریک کی سرگرمیوں میں احتجاجی ریلیاں، اجتماعات اور کانفرنسیں شامل تھیں۔ اس سلسلے میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس ۲۹ جنوری کو منصورہ لاہور میں امیر جماعت اسلامی منور حسن کی زیر صدارت ہوئی اور پھر تیس جنوری کو لاہور میں اس سلسلے کی آخری ریلی نکالی گئی۔ ہفت روزہ "ختم نبوت” اور ہفت روزہ "اہلحدیث” نے اس حوالے سے اظہار خیال کیا ہے۔
"ختم نبوت” نے مولانا حنیف جالندھری کا ایک مضمون اس حوالے سے شائع کیا ہے جس میں اس تحریک کے بنیادی مطالبات اور دیگر تفاصیل ذکر کی گئی ہیں۔ اس تحریک کےتین بڑے مطالبات تھے ۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت انسداد توہین رسالت قانون میں ہر قسم کی ترمیم و تحریف سے باز رہے اور اس کا اعلان اسمبلی میں کیا جائے کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے پیش کیا گیا ترمیمی بل غیر مشروط طور پر واپس لیا جائے۔ اور تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ سابق وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی کو تحلیل کیا جائے جس کو قانون ناموس رسالت پر ’نظر ثانی‘ کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ مضمون نگار نے ذکر کیا ہے کہ خود وزیر اعظم نے فون کر کے انہیں ان مطالبات کے منظور ہو جانے کے بارے میں آگاہ کیا۔ آخر میں "ختم نبوت کا اعجاز” بیان کرتے ہوئے صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اللہ تعالی نے مسئلہ ختم نبوت کو حل کرنے اور قادیانیوں کو ہمیشہ کے لیے کافر قرار دینے کا "ختم نبوت ” میں ایک مضمون مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی کا شائع ہوا ہے جس میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کی تفصیلات ذکر کر تے ہوئے مضمون نگار نے تحریر کے بنیادی مطالبات تین کے بجائے چار لکھے ہیں۔ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ آسیہ مسیح کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کیا جائے [1]۔
مذکورہ بالا جریدے نے اپنے اداریے میں قانون ناموس رسالت کے حوالےسے وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کی کاوشوں کو” سلام عقیدت” پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ وزیر اعظم کو ان کی وزارت کی طرف سے صحیح رہنمائی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی[2]۔
"اہلحدیث” نے اپنے اداریے میں ۳۰ جنوری کو ہونے والی ریلی کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر پروفیسر ساجد میر کے خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ ” تیونس، مصر، اردن سمیت دیگر عالم اسلام کے اندر مسائل کے ضمن میں جو عوامی احتجاج اور اضطراب ہے وہ ہمارا بھی ہے، لیکن پاکستان کے عوام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور ناموس رسالت ایکٹ کے تحفظ کی خاطر میدان میں نکل آئے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہو گیا کہ تاجدار ختم نبوت کے ناموس کا مسئلہ ان کے لیے سب سے اہم ہے”۔ جریدہ آخر میں ذکر کرتا ہے کہ ریفرنڈم ہو چکا اور عوام نے اس قانون میں ہر قسم کی تبدیلی کو مسترد کر دیا ہے۔ لہٰذا اب حکومت کو بھی تمام مطالبات تسلیم کر کے انہیں قانونی شکل دینی چاہیئے[3]۔
جواب دیں