مباحث، مئی ۲۰۱۱ء

مباحث، مئی ۲۰۱۱ء

مقتول گورنرپنجاب  کا جنازہ: ۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیلات اور دینی جرائد کی آراء گزشتہ شمارے میں بالتفصیل گزر چکی ہیں۔ اس دوماہی میں صرف ماہنامہ "حق چار یار” نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں سابق گورنر سلمان تاثیر کے جنازے کے حوالے سے چند مشاہدات اور اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ 

مضمون نگار  نے لکھا ہے کہ جنازے کے لیے بادشاہی مسجد، داتا دربار اور گورنر ہاؤس کے خطباء نے انکار کر دیا۔ محکمہ اوقاف کے دیگر سرکاری علماء کرام سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن اکثر کے موبائل بند تھے۔ بالآخر پیپلز پارٹی کے ایک آزاد خیال مولوی افضل چشتی کو جنازے کے لیے بلایا جنہوں نے ۱۹ سے ۲۰ سیکنڈ میں جنازہ پڑھا دیا۔ اور یہ دنیا کا واحد جنازہ تھا جس میں یہ علم نہیں تھا کہ امام کہاں کھڑا ہے۔ اس دوران پی پی کے جیالے سیگریٹ نوشی اور آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔پھر گورنر کے جنازے کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کیولری گراؤنڈ میں لایا گیا جہاں فوجی اعزاز کے ساتھ ان کو دفن کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گورنر عوامی آدمی تھے اور گورنر ہاؤس کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے تو ان کے جنازے کو ایسے قبرستان میں کیوں دفنایا گیا جہاں جانے کا عوام سوچ بھی نہیں سکتی۔ صاحب مضمون لکھتا ہے کہ  اس واقعے میں درس عبرت  ہےان تمام افراد کے لیے جو شان رسالت ؐ جیسی مذموم حرکات میں ملوث ہیں اور جو ان کا ساتھ دیتے ہیں[5]۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے