مباحث، مئی ۲۰۱۱ء
متفرقات
۲۳ مارچ : یوم پاکستان
آل انڈیا مسلم لیگ كا سالانہ اجلاس ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء كوقائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں لاہور كے تاریخی پارك اقبال پارك میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں قرارداد لاہور كے نام سے ایك قرارداد صوبہ بنگال كے رہنما مولوی فضل حق نے پیش كی جس میں مسلمانوں نے اپنی منزل كا تعین كر لیا اور سات سال بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو ایک آزاد مملک کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دن کی یادگار میں مینار پاکستان لاہور تعمیر کیا گیا۔ ہر سال ۲۳ مارچ کا دن یوم پاکستان کے نام سے منایا جاتا ہے۔اس حوالے سے دینی جرائد کی آراء کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
پاکستان خالصتاً اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست ہے۔ جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان معاشی ضرورت کی پیداوار یا سیاسی چال ہے یا پاکستان بطور سیکولر ریاست وجود میں آئی ہے ان کے دعوے بے بنیاد اور شہداء کی قربانیوں پر الزام ہیں۔ لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ جس دو قومی نظریہ کے تحت ریاست وجود میں آئی وہ آج تک نظریہ پاکستان نہ بن سکا[23]۔ "ضرب مؤمن ” لکھتا ہے کہ ہم نے اپنی بنیادوں سے نظریں چرا رکھی ہیں ۔ ہماری بنیاد اسلام کے سوا کچھ نہ تھی اور نہ ہو سکتی ہے اور یہ قومی دن ہمیں اسی بنیاد کی جانب لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ "اہلحدیث” رقم طراز ہے کہ آج پھر اسلامیان پاکستان کو اپنے موجودہ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی اتحاد، جوش علم اور ایثار کی ضرورت ہے جس کی مثال قیام پاکستان کے وقت پیش کی گئی تھی۔ "ندائے خلافت” میں "مولانا الطاف الرحمٰن کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ہم نے تحریک پاکستان کے وقت اسلامی نظام کے وعدے کے ساتھ اس آزاد مملکت کے حصول کی جدو جہد کی تھی لیکن جب اللہ تعالی نے کامیابی سے نوازا تو ہم نے سارے وعدے پس پشت ڈال دییے ۔ اسی جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق قسم قسم کے عذاب ہم پر نازل کیے۔ اور نا اہل حکمرانوں کا تسلط بھی عذاب ہی کی ایک شکل ہے۔ ہمیں پاکستان کو پاکستان بنانے کے لیے ایک اور تحریک پاکستان کی ضرورت ہے”۔ [24]
"العارف” میں مضمون نگار قیام پاکستان کے عمل میں سرکردہ اہل تشیع کا مختصر تذکرہ پیش کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ "پاکستان میں اہل تشیع کا قتل اور بے گناہ لوگوں کو قتل کی سازشوں میں ملوث کرنا استحکام پاکستان کے لیے خطر ناک ثابت ہو رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں شاندار کردار ادا کرنے والی قوم اب استحکام پاکستان کی جنگ لڑ رہی ہے۔”[25]
عبد الستار ایدھی کو جماعت احمدیہ کی جانب سے امن ایوارڈ
ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی جناب عبد الستار ایدھی اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ حال ہی میں انہیں جماعت احمدیہ کی جانب سے "احمدیہ مسلم پیس ایوارڈ ۲۰۱۱ء” دیا گیا ہے جسے یورپ میں ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے لندن میں وصول کیا۔ اس کانفرنس میں ان کا ایک ویڈیو پیغام حاضرین کو دکھایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ "انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، میں کسی تفریق کو نہیں مانتا، جماعت احمدیہ جو کام کر رہی ہے وہ رب کو راضی کرنے کے لیے کر رہی ہے، میں اس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں[26]"۔ اس بیان پر دینی حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی اور ساتھ ہی عبد الستار ایدھی کو قادیانیوں سے ہوشیار رہنے کا بھی کہا گیا۔
روزنامہ اسلام کے علاوہ دینی جرائد میں سے "ختم نبوت” نے اس حوالے سے اداریہ تحریر کیا ہے۔ جریدہ عبد الستار ایدھی سے سوال کرتا ہے کہ "جو لوگ اسلام، بنی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کے دشمن ہوں، پاکستان کے غدارہوں ان کی طرف سے آپ کو امن کا ایوارڈ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ ” کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ آستین کے سانپ آپ کی سماجی خدمات کو داغدار کرنا چاہتے ہیں یا مسلمانوں کو آپ سے متنفر کرنا چاہتے ہیں[27]؟۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء اور پاکستان کے داخلی حالات
انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کے تحت دسواں کرکٹ ورلڈ کپ ۱۹ فروری ۲۰۱۱ء سے شروع ہو کر ۲ اپریل کو اختتام پذیر ہوا۔ اس میں کل ۱۴ ٹیموں نے حصہ لیا اور یہ میچ بھارت نے جیت کر خود کو عالمی چیمپین بنا لیا۔ ان مقابلوں میں پاکستان سیمی فائنل تک اچھی کارکردگی کے ساتھ پہنچ گیا تھا جس وجہ سے اس کی فتح کے امکانات بھی موجود تھے۔دوسرا سیمی فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا ۔ بھارت اور پاکستان چونکہ روایتی حریف ہیں اس لیے ان کے درمیان ہونے والے مقابلوں میں دونوں جانب کی عوام کا جوش و جذبہ کسی جنگ کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا اورپاکستان کے ہارنے پرعوام کو بہت زیادہ مایوسی ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بار ایک مثبت پہلو بھی سامنے آیا کہ ایک بڑی تعداد نے سیمی فائنل تک پہنچنے کو بھی بڑی کامیابی سمجھا اور ان کا پرجوش استقبال کیا۔
اس حوالے سے دینی جرائد نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ "ضرب مومن” لکھتا ہے کہ اگر شرعی حدود میں رہ کر کھیلا جائے تو کوئی بھی کھیل ناجائز نہیں ہوتا۔ لیکن کھیل کا حسن اس وقت گہنا جاتا ہے جب اسے ایک پورے طبقے پر مسلط کر دیا جائے۔ ہمارے ہاں اب حکومتیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، یہ کھیل اب کھیل نہیں رہا بلکہ سیاسی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ہے تو کڑوا سچ مگر مان لینا چاہیئے کہ اسی ورلڈ کپ کے دوران ریمنڈ رہا ہوا، ۵۱ ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے، ڈرون حملوں میں ۵۵ بے گناہ شہید ہوئے۔ اور اس سے قبل اگر دیکھیں تو سوات آپریشن بھی ٹی ۲۰ ورلڈ کپ کے دوران عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ سب واقعات واضح کرتے ہیں کہ کرکٹ فوبیا میں ویسے ہی عوام کو مبتلا نہیں کیا گیا بلکہ یہ ایک خاص حکمت عملی ہے جس کے تحت پاکستانیوں کے اندر سے غیرت اور وقار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ورنہ یہی قوم تھی جس نے گوانتاناموبے میں قرآن کی بے حرمتی پر امریکہ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا تھا اور اب قرآن کی بے حرمتی پر ہونے والے مظاہروں میں عوامی شمولیت نظر ہی نہیں آتی۔ "الاعتصام” لکھتا ہے کہ کھیل ایک تفریح ہے لیکن ایسے کھیل جس میں وقت کا بہت زیادہ ضیاع ہو وہ اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں کیوں کہ اسلام وقت کے ضیاع کے سخت خلاف ہے۔ اب کرکٹ کی صورتحال یہ ہے کہ پوری قوم کا وقت برباد کیا جاتا ہے، دیکھنے اور کھیلنے میں، ہار جانے میں "تعزیت” کر کے اور جیت جانے پر بے ہنگم اظہار مسرت، ڈھول اور بھنگڑے ڈال کر غیر شرعی کام کیے جاتے ہیں جو نہ صرف وقت بلکہ اخلاقی اقدار کا بھی ضیاع ہے۔ جریدہ اس رویے پر طنز کرتا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ میچ میں فتح کے لیے جو امنگ اور تڑپ دیکھتے ہیں وہ ان امور میں کیوں نہیں جن میں بھارت ہم سے آگے ہے۔ اقتصادیات، صنعت، آئی ٹی اور وطن سے محبت میں ہم اس سے آگے کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟ ۔ جریدے نے شہباز شریف کی طرف سے جیتنے پر ہر ٹیم ممبر کو ایک مربعہ زمین دینے کے اعلان پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب سے بڑے مجرم ہمارے حکمران اور سیاستدان ہیں۔ کھلاڑیوں اور فلمی فنکاروں پر انعامات اور نوازشات کی ایسی بارشیں کہ خدا کی پناہ۔ حالانکہ اس کے زیادہ حق دار ہمارے سائنس دان اور اساتذہ کرام ہیں جو اپنے وطن کے سرحدی اور اخلاقی دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں۔ اس طرح کے بے مصرف کاموں میں قومی خزانے کا بے جا ضیاع کیا جاتا ہے حالانکہ اس کے زیادہ مستحق مریض، بھوکے اور بیروزگار ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بھی ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ "ندائے خلافت” کا خیال ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان مسلسل عالمی کھلاڑیوں کے گھیرے میں ہے اور وہ اسے ہر لحاظ سے ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اور اب وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کسی بھی سطح پر فاتح کے طور پر نظر آئے۔ اس لیے پہلے انہوں نے پاکستانی ٹیم کے ہارنے کے لیے میدان ہموار کیا، پھر میڈیا کے ذریعے اتنی زیادہ hike دی کہ ہم اس میچ کو "یوم التغابن” بنا لیں اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔ وہ شکست کو ہمارے رگ و پے میں اتارنا چاہتا ہے تا کہ ہم ہر طرح سے مفلوج ہو جائیں۔ ڈرون حملے بھی ہم میں احساس بے بسی کو مزید اجاگر کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اور آخر کار ہم ذہنی شکست کی اس حد کو پہنچ جائیں کہ لیبیا کی طرح اپنے سارے اثاثے طشتری میں رکھ کر انہیں پیش کر دیں۔ اوروہ ہمیں معاشی طور پر دیوالیہ کر کے ، سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے اور امن و امان کا خاتمہ کر کے اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں کھیل کو اپنے اعصاب پر سوار کرنے کے بجائے ملک بچانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اگر ہم نے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہ بنایا تو دنیاہمیں کرکٹ کے میدان سے ہی نہیں صفحہ ہستی سے بھی مٹا دے گی[28]۔
ڈرون حملے
پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ہونے والے ڈرون حملے لاہور میں ایک امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد اچانک ہی بند ہو گئے تھے اور تقریبا ایک ماہ تک بند رہے۔ لیکن فروری کے اختتام میں ایک بار پھر شروع ہو گئے۔ اس موضوع پر گزشتہ دو ماہی جرائد کی جانب سے عمومی طور پر اظہار خیال نہیں کیا گیا۔ تاہم ماہنامہ "میثاق” نے اس حوالے سے اداریہ تحریر کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ "ہر کوئی جانتا ہے کہ لاہور میں امریکی شہری کی گرفتاری کے ساتھ ہی امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ بھول گئی، اس نے پاکستان پر اس کی رہائی کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، ڈرایا دھمکایا اور لالچ بھی دی اور نرمی اور مفاہمت کا تاثر دینے کے لیے ڈرون حملے بھی بند کر دییے۔ لیکن پاکستانی عوام آڑے آ گئے اور حکمرانوں کے راستے کی دیوار بن گئے۔ امریکہ جب ریمنڈ کی جلد رہائی سے مایوس ہو گیا تو دوبارہ ڈرون حملے شروع کر دییے”۔ جریدہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں ریمنڈ کی رہائی کے خلاف صف آراء ہو گئی تھیں انہوں نے قبائلیوں پر ہونے والے ظلم پر کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ نیز یہ کہ اگر ہم سب مل کر اس ظلم کے خلاف ڈٹ جائیں تو یہ حملے ختم ہو سکتے ہیں کیوں کہ باطل ظاہراً کتنا ہی مضبوط دکھائی دیتا ہو لیکن وہ حق کی ضرب برداشت نہیں کر سکتا[29]۔
جواب دیں