مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء
قائد اعظم ، سیکولر یا دین پسند؟ ایاز امیر کے کالم پر تبصرہ
مسلم لیگ (ن)سے وابستہ قومی اسمبلی کے رکن اور معروف کالم نگار ایازا میر نے اپنے کالم بعنوان ” روشن منزلوں کا حصول” میں انہوں لکھا کہ "قیام پاکستان کے وقت دو مختلف نظریا ت میں مسابقت چل رہی تھی ایک قائد اعظم کا سیکولرازم ….دوسرے وہ اسلامی نعرے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بہتری پیدا کی ، سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے قائد اعظم کے پا س ان نعروں پر انحصار کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا”[32]۔ ان کے اس کالم پر دینی جرائد نے تنقید ی تبصرہ شائع کیا ہے ۔
ماہنامہ ” حق چار یا ر ” اپنے تبصرے میں لکھتا ہے ” جنا ب ایاز امیرقائد اعظم پر الزا م تراشی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اسلامی نعرے مصلحتاً برداشت کیے ، وہ سیکولر نظام چاہتے تھے ، یہ ہے مسلم لیگی رکن کا اپنے قائد کے متعلق نظریہ !حالانکہ قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دورا ن با ر بار واضح کیا کہ پاکستان کوجدید اسلامی فلاحی وجمہوری مملکت کے لیے ایک لیبارٹری کے طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔” [33]
ہفت روزہ ” ندائے خلافت ” اس ضمن میں لکھتا ہے ” ایاز امیر صاحب پاکستا ن ایک اسلامی نظریاتی اسٹیٹ ہے اس حقیقت کا انکار روز روشن میں سورج کے انکار کے مترادف ہے ، آپ کے قائد اعظم کی مسلم لیگ نے نعرہ لگایا تھا مسلم ہے تو لیگ میں آ، ……. ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قائد اعظم تھیوکریسی کے حق میں نہیں تھے البتہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست دیکھنا چاہتے تھے جس کے لیے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کی صورت میں بہترین بنیا د فراہم کردی تھی ، اور تمام مسالک کے ۳۱ علماء کےمتفقہ ۲۲ نکات کی صورت میں اسی بے تکے سوال کامنہ توڑ جواب دیا تھا ۔”[34]
جواب دیں