مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

پاک امریکہ دفاعی مذاکرات

پاکستا ن اور امریکہ کے مابین دفاعی مذاکرات کا پہلا دور مار چ  ۲۰۱۰ ءمیں واشنگٹن میں  جبکہ دوسرا جو لائی ۲۰۱۰ ء کو اسلام آباد میں ہوا ۔ ان مذاکر ا ت میں دونوں ممالک کے مابین متعدد امور پر باہمی تعاون   کو جاری رکھنے کے حوالے سے اتفاق رائے ہو ا ۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پالیسی سٹیئرنگ گروپ توانائی،دفاع،سکیورٹی،انسداد دہشت گردی،قانون کے نفاذ،عوامی رابطہ،ایٹمی عدم پھیلاؤ،سائنس و ٹیکنالوجی،تعلیم،زراعت،صحت اور مواصلات میں تعاون بڑھانے کےلیے  حکمت عملی تیار کرے گا۔ نیز اعلامیہ کے مطابق  دہشت گردی اور انتہاپسندی عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں اس   لیےپاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر اس جنگ میں اپنا  کردار ادا کرتا رہے گا۔امریکہ نے پاکستان کے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے انویسٹمنٹ فنڈ کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے جبکہ پانی کے مسئلے پر علیحدہ میکانزم تیار کیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق  امریکہ پاکستانی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی دینے کیلئے قانون سازی کرے گا۔  دینی جرائد میں سے "ضرب مؤمن” نے اس حوالے سے  ادارتی نوٹ  تحریر کیا ہےجس میں ان مذاکر ات کو امید افزا  اور پاکستانی حکومت کی کا میابی قر ار دیا گیا تاہم حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے محتاط ہو نا چاہیے تاکہ اس سے چین کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی  کی فضا پید ا نہ ہو ۔

جریدہ لکھتا ہے "امریکا کو سٹریٹجک ڈائیلاگ پر مجبور کرنا اور اسے برابری کی بنیاد پر سفارتی رویے پر آمادہ کرنا بلا شبہ پاکستانی رہنماؤں کی مثبت سوچ کا نتیجہ ہے، البتہ امریکہ کےماضی کےکردار کے  پیش نظر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ۹/۱۱ کے بعد امریکہ کا جو بدمست ہاتھی والا طرز عمل تھا اس میں یہ واضح تبدیلی ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ امریکہ ہمیشہ کمزور کو دبا کر اور طاقتور کو بہلا کر اپنا کام نکالنے کی تاریخ رکھتا ہے  ۔ جب تک پاکستان  نے کمزور ی دکھائی تو امریکہ نے ڈنڈے کا استعمال کیا اور اب جبکہ پاکستان نے اپنی حیثیت کا اظہار شروع کیا ہے تو وہ ڈنڈا رکھ کر گاجر کا استعمال کر رہا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ امریکہ اس پورے معاملے میں اپنے مفادات کو ہی ترجیح دے گا لہٰذا ہمیں اپنے مفادات کی خود ہی پاسداری کرنی ہو گی۔” جوہری ٹیکنالوجی میں امریکی تعاون کی رضامندی کے حوالے سے جریدہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ” اس کی وجہ ہمارے دوست چین کی جانب سے اس میدان میں ہمارے ساتھ  غیر مشروط تعاون ہے۔ لہذا امریکہ سے اس ٹیکنالوجی کے حصول میں ایسی حکمت عملی ضروری ہے جس سے چین کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ نیز بھارت کے جارحانہ رویوں کی بنا پر خطے کے امن کے لئے بھی چین اور پاکستان کے مضبوط سفارتی ، سیاسی اور اسٹریٹجک تعلقا ت ضروری ہیں۔”[37]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے