مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

سانحہ داتا دربار لاہور

لاہور   میں واقع مشہور صوفی بزرگ  علی ہجویر یؒ  کے مزار المعروف (داتا دربار) کے احاطے میں یکم جولائی ۲۰۱۰ ء  کو تین خود کش دھماکے ہو ئے جن میں ۴۷ لو گ شہید جبکہ ۲۰۰ کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کی ملک بھر کے تقریباً تمام طبقات نے مذمت کی ، تاہم بریلوی مسلک کی جانب سے اس کے خلاف احتجاج نسبتاً زیادہ دیکھنے میں آیا ،بریلوی مسلک سے منسلک تنظیموں نے احتجاجی جلسے جلوسوں کی صورت میں اپنا احتجاج ریکا رڈ کر وایا ۔  نیز  مذکو رہ مسلک کی طر ف سے اس کارروائی کو طالبان کی کارستانی قرار دیتے ہوئے ان کے حمایتیوں کو بھی ہدف تنقید بنایا  گیا  ۔  جرائد  نے واقعہ کی مذمت  ، بیرونی مداخلت کے امکان اور  مقتدر حلقوں کے رویوں پر  بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے  ۔

بریلوی ماہنامہ ” منہاج القرآن ” کے خیال میں اس دہشت گر دی کا اصل محر ک تو بلاشبہ دشمنان دین اور مخالفین پا کستان ہیں، تاہم جریدہ  برملا لکھتا ہے "اس دین و وطن دشمنی کا آلہ کا ر بننے والے لوگ وہی ہیں جو عام حالات میں اولیاء اللہ سے عداوت رکھتے ہیں۔[1]مزارات پر حاضری کے عمل کو قبر پرستی اور زائرین کو مشرک وبدعتی بلکہ کافر ومرتد خیال کرتے ہیں ” جریدہ افسوس کا اظہا ر کرتے ہوئے لکھتا ہے ” جب مساجد و مدارس کے دروس میں اہل اسلام کو بدعتی اور  مشرک اور کا فر قرار دیا جارہا ہو ، کتب چھپ رہی ہو ں ، مضامین آ رہے ہوں اور فتوے جاری کیے جارہے ہو ں تو قتل وغارت گری کیسے رک سکتی ہے؟ ” ۔ ” دعوت تنظیم الاسلام” کے خیال میں پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس میں پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ، چنانچہ جریدہ لکھتا ہے ” جب اس صوبے کو کمزور کرنے کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو بیرونی خفیہ ایجنسیوں نے پوری پلاننگ کے ساتھ داتا دربار کو اپنا ہدف بنایا اور پوری کوشش کی کہ فرقہ وارانہ فساد پیدا کر کے تما م مسالک کو باہم دست وگریباں کر دیا جائے   افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے شہری خود ان پاکستان دشمن طاقتوں کے آلہ کا ر بن رہے ہیں ۔ ” ضیائے حرم ” اپنے اداریے میں رقمطراز ہے ” اجتماعی مفادات کے امین ایسے مقا مات کا تحفظ نہ صرف متعلقہ  ملک کی حکومت کا فرض اور عالمی انسانی حقوق چارٹر کی ضامن اقوام متحدہ کی بھی ذمہ داری ہے  ، اقوام متحدہ نے اجتماعی مفادات کے حامل اداروں  — ریڈ کراس کے دفاتر ، فائیو سٹار ہوٹلز وغیرہ—  کو خصوصی سیکیورٹی دے رکھی ہے تو بزرگان دین کی عالمی شہرت یافتہ خانقاہیں ان اداروں سے کہیں زیادہ انسانیت کے لیے نفع بخش ہیں تو ان کے  تحفظ کا خصوصی اہتما م کیا جانا چاہیے ” جریدہ حکومتی اراکین کو متوجہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” حالات کا صحیح تجزیہ کرو ، نام نہاد جہادی تنظیموں کے وہ افراد جو وقت گزارنے کے لیے تمھاری سیاسی جماعتوں کی رکنیت حا صل کر رہے ہیں وہ تمھارے وفادار نہیں، وہ تو اپنی حفاظت کے لیے چھتری کی تلاش میں ہیں "۔ ساتھ ہی جریدے نے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی مختلف تنظیموں کو اس واقعے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے ۔ [2]

واقعے کی مذمت کر تے ہوئے  اہلحدیث ” الاعتصام ” لکھتا ہے ” عقیدے کے فہم و رائے کا اختلاف الگ بات ہے لیکن کو ئی بھی باہوش وحواس اور درد دل رکھنے والا انسان اس حادثے کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔۔ خوشی کی بات ہے کہ تما م مسالک کے زعماء اس نکتے پر متفق ہیں کہ دہشت گر د کا کوئی مسلک ومذہب نہیں ہو تا ۔ طاغوت کچھ ناسمجھوں کو بہلا پھسلا کر اپنا آلہ کار بناتا ہے ۔”[3]

” ضرب مومن” اس موقع پر حکومتی پیپلز پارٹی اور مر کز میں اپوزیشن اور صوبہ پنجاب کی مقتدر پارٹی مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی طر ف سے ایک دوسرے پر تنقید اور الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے "یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر ہر محب وطن مسلمان دل گرفتہ اور پریشان ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے ایسے واقعے کو بھی سیاسی دکان چمکانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔” جریدہ لکھتا ہے ” ہم آپس میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ، یقیناً اس طرح کے واقعات جس صوبے میں ہوں وہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی نااہلی کا ثبوت ہیں مگر اپنی تو انائیاں آپس کے بجائے دشمن کے خلاف اقداما ت پر لگائی جائیں۔” نیز جریدے نے بی بی سی پر ۳ جو لائی ۲۰۱۰ ء کو "دیوبندی بریلو ی تاریخ اور اختلافات ” کے عنوان  سے شائع ہونے والے  ریاض  سہیل کے مضمو ن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ” تحریر میں دیگر الزامات پر کچھ کہنا اس وقت خارج از بحث ہے تاہم دیوبندی بریلوی اختلافات کا ذکر کر کے عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ حملے دیوبندی مدارس کے متعلقین نے کیے ہیں ۔ تو یہ ملک پر گزرنے والی حقیقی صورت حال سے اغماص برتنے کے مترادف ہے اور حقائق سے نظریں ہٹا کر لوگوں کو مسلکی اختلافات میں الجھانے اور آپس میں لڑ اکر ایک دوسرے کو ما ر دینے کی سازش ہے "۔ جریدے کےخیال میں استعماری طاقتیں اپنے عزائم میں ناکامی کے بعد یہاں کے عوام کو لڑانا چاہتی ہیں  اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ  اس حملے کو کسی مسلک ، مکتب فکر یا جماعت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کر کے استعمال کر نے کی بجائے حقائق کی تلاش کر نی چاہیے ۔” [4]

غیر مسلکی "ندائے خلافت ” اپنے اداریے میں اس سانحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” یہ خون خرابہ ہمارے دشمن ، اسلام کے دشمن اور پاکستان کے دشمن کر رہے ہیں ،ا ور اشارہ ان کی طر ف کردیتے ہیں جن کی رگوں میں ہمارا ہی خون دوڑ رہا ہے ۔” [5]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے