مباحث نومبر ۲۰۱۰ ء

مباحث نومبر ۲۰۱۰ ء

سیلاب قومی سانحہ

جولائی کے اواخر اور  اگست  کے اوائل  میں مون سون بارشوں کے باعث ملک اپنی  تاریخ  کے شدید ترین سیلاب کی زد میں رہا ، سیلاب سے خیبر پختونخوا ، پنجاب ،سندھ ، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں شدید تباہی ہوئی ، سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ، کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا، اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق سیلاب سے دو کروڑ کے لگ بھگ  لوگ متاثر ہوئے اور نقصان کا تخمینہ ایک  ارب ڈالر سے متجاوز ہے ۔سیلاب زدگان کی بحالی کا کام جاری ہے ۔  مبا حث کے گزشتہ شمارے میں اس حوالےسے بعض ہفت روزہ جرائد کا تجزیہ شائع کیا جا چکا ہے ۔ رواں دوماہی میں تما م مسالک کے نمائندہ جرائد نےسیلابی صور ت حال کے مختلف پہلوؤں پر اپنی آراء کا اظہا ر کیا ہے ۔جرائد نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی رویے کو اس طرح کی مشکلات کا سبب قرار دیا اور عوام کو توبہ استغفار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔  تاہم ایک  خیال یہ بھی ہے  کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور عذاب عذاب کی رٹ لگائے رکھنے سے عوام میں مایوسی پھیلے گی  اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیئے۔ جرائد سیلاب سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کو ناکافی اور اس موقع پر صدر مملکت کے فرانس اور بر طانیہ کے دورے بے وقت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دورسرے پر تنقید  کو غیر ضروری خیال کیاگیا۔سیلاب کے دور ان بااثر افراد کی طرف سے اپنی املاک کی بچانے کے لیے سیلابی ریلے کا رخ تبدیل کرنے کے واقعا ت کو خود غرضی کی مثا ل قرار دیاگیا ۔ سیلاب زدگان کی بحالی اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش اور اس پر ابھارنے کی خواہش سبھی  جرائد کے ہاں  پائی جاتی ہے ۔

بیشتر جر ائد کی آرا ء ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اس لیے یہاں ان کا خلاصہ مشترک نکات کی صور ت میں پیش کیا جارہا ہے ، البتہ جر ائد کی منفرد آراء کا علاحدہ سے ذکر کیا جائے گا ۔

 

مشترک نکات :

  • · ملک میں آنے والا حالیہ تباہ کن سیلاب  محض کسی موسمی تغیر کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ  ہماری اجتماعی بداعمالیوں اور اللہ سے اعراض کرنے  پر اللہ کی طر ف سے پکڑ ہے ۔ یہ وقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور  سابقہ گناہوں کی معافی مانگیں ۔محض موسمیاتی تغیر کو سیلاب کا باعث قرار دینا سیکولر ذہنیت کا اظہار اور مسلمانوں کو اپنے اعمال درست کرنے سے روکنے کا ایک حربہ ہے۔ظاہری اور مادی سبب اپنی جگہ درست ہے لیکن مسبب الاسباب کو بھول نہ جانا  چاہیے ۔[1]
  • · اس نازک موقع پر بھی بعض خود غرضوں نے اپنی املاک کو بچانے کے لیے سیلابی ریلے کو جس انداز میں بستیوں کی طرف موڑ دیا ، یہ انتہائی خودغرضانہ فعل ہے اور اس کے مرتکب افراد کو بلاتخصیص انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔ [2]
  • · سیلاب کی شدت کی ایک وجہ ملک میں ڈیموں کی کمی ہے ، اگر اس وقت کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیم ہوتے تو اتنی زیادہ تباہی نہ ہوتی ، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مخاصمتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر پر  اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے نقصانات سے بچا جا سکے ۔[3]
  • · ایسے موقع پر جب کہ پوری قوم سیلاب کی زد میں تھی صدر کا دورہ برطانیہ وفرانس محض سیر سپاٹے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ، انہیں ا س موقع پر قوم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا ،تاہم اس سب کچھ کے باوجود عالمی اداروں کی طر ف سے حکومت پاکستان پر امداد کی تقسیم کے حوالے سے عدم اعتماد پاکستا  ن کے لیے شر مندگی کا باعث ہے ۔[4]
  • · اس مشکل صورت حال میں مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا اور ایک دوسرے پر الزامات، اور ایک دوسرے سے زیادہ امداد حاصل کرنے کے دعوے بے وقت کی راگنی اور اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کر نے کا ہتھکنڈہ ہے اس  سےاجتناب کر نا چاہیے تاکہ متاثرین کی بحالی کا عمل متاثر نہ ہو۔[5]
  • · قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے  جیسے محکمہ موسمیات اور محکمہ آبپاشی اس مو قع اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا نہ کرسکے جس کے باعث نقصان زیادہ ہوا۔  ان اداروں  کو منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔[6]
  • · متاثرین سیلاب کی بحالی بھر پو ر مالی ایثار اور قربانی کی متقاضی اور قوم کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کے لیے ہر طبقہ زندگی کے افراد  کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا  ۔  اور عید کے موقع پر سیلاب زدگان کو بطور خاص یاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔ [7]

منفرد نکات :

  • · "منہاج القرآن ” کے خیال میں مسلم لیگ ن کے قائد  میا ں نواز شریف کی جانب سےمتاثرین سیلاب کی امداد کےلیےمالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے عمل کو یقینی بنانے کے لیےقومی بحالی ادارہ[8] کے قیام کی تجویزسے اگرچہ وزیر اعظم نے اتفاق کیا لیکن پھر صد ر مملکت کے کہنے پر اس پر عمل  درآمد نہ کرنا مناسب نہیں تھا ۔[9]
  • · "البلاغ ” کے خیال میں غیر مسلم این جی اوز خدمت انسانیت کی بجائے اپنا ایک مخصوص ایجنڈا رکھتی ہیں اس لیے اس با ر سیلاب کے موقع پر ان کا جوش خروش کم دیکھنے کو ملا ہے ، البتہ مسلم این جی اوز اور مسلم ممالک پورے جذبے کے ساتھ بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں ۔ [10]
  • · جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے متعدد دینی جرائد جو مذہبی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں انہوں  نے  حالیہ سیلاب کو  اعمال  بد کے نتیجے میں عذاب الٰہی قرار دیا ۔البتہ "سوئے حجا زنے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا ہے ۔وہ  "لکھتا ہے ” ایسے ماحول میں جبکہ پوری قوم زخم خوردہ ہے بعض مذہبی حلقوں نے عذاب کی رٹ لگا رکھی ہے جو کسی طور مناسب نہیں اور اسلام کی کوئی خدمت نہیں….. ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم ایسے مواقع کو ابتلاءاور آزمائش کا نام دیں اور بلاشبہ یہ ابتلا ء اور آزمائش ہی ہے ۔”[11]
  • · "الشریعہ "نے نفلی حج اور عمرہ کرنے والے افراد کو ترغیب دی کہ وہ نفلی حج یا عمرہ کرنے کی بجائے یہ رقم متا ثرین کی بحالی پر خرچ کریں۔[12]
  • · "العصر”ان حالات میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے لیے حکومت کو تجاویز دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ  "معاشرے کے سلجھے ہوئے افراد کا بااختیار کمیشن بنایا جائے جو تما م حالات کا جائزہ لے ، بیرونی امداد کی بجائے خود انحصاری کی پالیسی اپنائی جائے ،بددیانتی اور کمیشن خوری کا تدارک کیا جائے ، بد اعتمادی کی فضا کو ختم کیا جائے اور  ایک دوسرے سے زیاد ہ امداد حاصل کرنے کے دعوے نہ کیے جائیں کہ  اس سے بد اعتمادی بڑھتی ہے، اور ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جن سے متاثرین کی بحالی میں مدد مل سکے ۔”[13]
  • · بھارت کی طر ف سے پچاس لاکھ ڈالر کی امداد کا ذکر کرتے ہوئے ” اہلحدیث” لکھتا ہے ” افسوس کی بات ہے کہ ہماری حکومت نے امریکی دباؤ میں آ کر اپنے ازلی دشمن بھارت کی طرف سے پچاس لاکھ ڈالر کی امداد قبول کر لی ،  وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے بھارت کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دینا شرمنا ک بیان ہے ۔” [14]
  • · "اہلحدیث” نے تجویز کیا ہے کہ  "سپریم کو رٹ نے این آر او کے خلاف جو فیصلہ دے رکھا ہے اس پر عمل در آمد کیا جائے اور وہ رقم سیلاب زدگان کی امداد میں صرف کی جائے۔”[15]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے