صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی – ایک تقابلی جائزہ
تعارف
مشرق وسطیٰ کا علاقہ امریکی مقاصد کے لیے تزویری اہمیت کا حامل ہے۔ توانائی کے ارزاں وسائل تک رسائی، اپنے کلیدی حلیف اسرائیل کی حفاظت اور مدد، نیزتجارتی اور علاقائی بالادستی قائم رکھنے والے راستوں پر کنٹرول اس کی چند اہم ترجیحات ہیں۔ تین عظیم ترین مذاہب کے مقدس مراکز کی موجودگی نے اس خطے کی اہمیت اور بڑھادی ہے۔صدر اوبامانے ایسے وقت میں ذمہ داری سنبھالی جب مشرق وسطیٰ کے حالات بہت پیچیدہ تھے۔اوباما کے انتخاب اور حلف برداری کے درمیانی وقفے میں غزہ پر اسرائیلی حملے نے علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جذبات کو مزید بھڑکا رکھا تھا۔ چنانچہ اسرائیل کے خلاف عربوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف اسرائیل کی کھلی حمایت اور نائن الیون کے بعد مسلم ملکوں پر کی جانے والی فوج کشی کی بناء پر پائی جانے والی شدید ناراضگی کو کم کرنا ضروری تھا۔
علاقے میں ہونے والے بعض واقعات نے نئی انتظامیہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہتھیار فراہم کردیے۔ عراق جو۲۰۰۳ء سے مشرق وسطیٰ کا نہایت متاثرہ مقام تھا، خوں ریز جنگ کے بعد وہاں حالات بہتر ہورہے تھے اور امریکہ کی واپسی کی بات چیت جاری تھی اور نومبر ۲۰۰۸ء میں عراقی حکومت سے اسٹیٹس آف فورسز ایگری منٹ ( SOFA ) نامی معاہدہ طے پاچکا تھا۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو وہ عملاً عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مدد کررہا تھا۔بظاہر امریکہ مخالف کردار اپنائے رکھنے کے باوجود وہ ان فوائد سے واقف تھا جو صدام کے بعد عراق کی شیعہ اکثریت تک اپنے اثرو رسوخ کو وسعت دے کر اسے حاصل ہوسکتے تھے۔افغانستان میں بھی ایران نے دسمبر ۲۰۰۱ء میں بون کانفرنس میں کرزئی حکومت کیحمایت کرکے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ ان تغیرات کے درمیان وائٹ ہاؤس میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ، بارک اوباما کی آمدسے ایک نئے دور کے آغاز کی امیدکی جارہی تھی۔صدر اوباما نے منصب سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنی نئی پالیسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے خیالات کا اظہارایک عرب نیوز نیٹ ورک العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ بعد میں ان کی یہ فکر قاہرہ کے خطبے میں زیادہ جامع انداز میں سامنے آئی جسے میڈیا کی جانب سے ’’تاریخی موڑ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس بناء پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اوباما نے اپنے اس خطاب میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ مسائل خصوصاً تنازع فلسطین کا ذکر کس طور پر کیا۔
اوباما کی پیش قدمی
قاہرہ کی اس تقریر میں اسرائیل سے امریکہ کے مضبوط ثقافتی اور تاریخی رشتوں کا ذکر جذباتی انداز میں یہودیوں کو مظلوم ٹھہراتے ہوئے کیا گیا اور فلسطینیوں کی زمین پر یہودیوں کے وطن کے برقرار رہنے کی ضرورت کو ناقابل انکار قرار دیا گیا۔صدر اوباما نے فلسطینیوں کی بات بھی کی جو ان کے بقول’’ایک وطن کی تلاش میں تکالیف اٹھاتے رہے ہیں‘‘ اور’ ’ بے گھر ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں، انہیں آئے دن بڑے اور چھوٹے پیمانے پر توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو کسی سرزمین پر قبضے کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘انہوں نے فلسطین کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ’’امریکہ عزت، مواقع اوران کی اپنی ریاست کے قیام کے معاملے میں ، جہاں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہیں، ان کے جائز جذبات سے بے رخی اختیار نہیں کرے گا۔‘‘ متعلقہ فریقوں سے ۲۰۰۳ء کے امن منصوبہ(روڈ میپ) پر عمل اور فلسطین خصوصاً حماس کی جانب سے تشدد ختم کیے جانے اور مؤثر حکمرانی کا مطالبہ کیا گیا۔فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف منفی جذبات میں کمی کے لیے اقدامات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات معمول پر لانے کے لیے زمین ہموار کیے جانے کی ضرورت کا اظہار بھی کیا گیا۔
دونوں فریقوں سے ایک دوسرے کے زندہ رہنے کے حق کا احترام کرنے کو کہا گیا۔اسرائیل کو فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کی صورت حال کو، بے شمار مقامات پرسیکیورٹی کے نام پر چیک کیے جانے کے تناظر میں جس کی وجہ سے ان کی آزادانہ نقل و حرکت محال ہے، بہتر بنانے کے لیے کہا گیا۔متنازع اسرائیلی بستیوں کو ’’غیرقانونی‘‘ ،’’امن کی راہ میں رکاوٹ‘‘ اور’’ سابقہ سمجھوتوں کی خلاف ورزی‘‘ کا نام دیا گیا۔اوباما نے شاہ عبداﷲ کی تجویز کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ تمام عربوں اور ان کے ہمنواؤں سے دو ریاستی حل کی تائید کا مطالبہ کیا۔تاہم اوباما نے اس خطاب میں اقوام متحدہ کی قراردادوں خصوصاً ۲۴۲ ویں اور ۳۳۸ ویں قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا جو بالترتیب ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں منظور کی گئی تھیں اور جنہیں امریکہ نے مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی مستقبل کی کسی بھی کوشش کے لیے رہنما اصول کے طور پر قبول کیا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اوباما نے پہلے اسرائیل کی المناک تاریخ اور جرمن حکومت کے ہاتھوں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی بات کی لیکن جب وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ذمہ داریوں کی ادائیگی اور وعدوں کی تکمیل کے موضوع پر آئے تو بیشتر بوجھ فلسطینیوں پر ڈال دیا گویا موجودہ مصائب کا سبب فلسطینی سرزمین پر یہودی قبضہ نہیں بلکہ فلسطینی خود ان مصائب کے ذمہ دار ہیں۔نیز خوں ریز غزہ تنازع جس سے ۲۰۰۹ء کا آغاز ہوا، اور ہزاروں معصوم لوگوں کی زندگیاں جس کی نذر ہوئیں، اس کا ذکر بالکل سرسری طور پر کیا گیا۔
مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے کے علاوہ اوباما نے دوسرے علاقائی معاملات مثلاً عراق کی صورت حال، ایران کے جوہری پروگرام اور جمہوریت سے اس کی وابستگی، خواتین کے حقوق اور مذہبی آزادی وغیرہ کے موضوعات پر بھی بات کی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ’’امریکہ عراق کے وسائل پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا‘‘ اور’’ وہاں اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کا خواہش مند بھی نہیںہے‘‘ ۔ اس موقع پر انہو ں نے عراق سے اپنے جنگی بریگیڈوںکی جولائی ۲۰۱۰ء اور تمام افواج کی جولائی ۲۰۱۲ء تک واپسی کے پروگرام کے ذکر کو دہرایا۔ایران کے معاملے میں صدر اوباما نے ’’باہمی مفاد‘‘ کی بنیاد پر ’’پیشگی شرائط کے بغیر‘‘آگے بڑھنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ان کی جانب سے یہ بات واضح کی گئی کہ امریکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کے ساتھ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے ایران کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اوباما نے یہ اعتراف بھی کیا کہ۱۹۵۳ء میں جمہوری طور پر منتخب مصدق حکومت کے خاتمے میں ان کے ملک کا ہاتھ تھا جس کا مطلب ہے کہ ایران- امریکہ تعلقات کی خرابی کی ذمہ داری، ان کے ملک کے اس طرز عمل پر عائد ہوتی ہے۔
علاقے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ پوچھا جانا برمحل ہے کہ صدر اوباما کی پیش قدمی کیا واقعی ایک ٹھوس تبدیلی کا ذریعہ بننے جارہی ہے یا اس کا انجام بھی سابق امریکی سربراہوں کے اقدامات جیسا ہی ہوگا۔ اس کا جواب ماضی کے ریکارڈ میں مل سکتا ہے۔
سابق صدور کے اقدامات
علاقائی اور بین الاقوامی حالات:سرد جنگ کے آغاز ہی سے قائم ہونے والی امریکی حکومتیں، شرق اوسط کو بین الاقوامی سیاسی ماحول کے تناظر میں دیکھتی رہی ہیں، اس کے نتیجے میں یہ علاقہ بالادستی کے قیام، تزویری فوقیت کے حصول اورتیل کے ذخائر تک رسائی کے لیے عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش کا مرکزبنا چلاآرہا ہے۔ آئزن ہاور (۱۹۵۳-۱۹۶۱)سے ریگن(۱۹۸۱-۱۹۸۹) تک امریکہ کی شرق اوسط پالیسی کا اولین مقصد سوویت یونین کا گھیراؤ تھا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی کارکردگی کے پیش نظر نکسن حکومت(۱۹۶۹-۱۹۷۴) اس نتیجے پر پہنچی کہ امریکہ- اسرائیل تعلقات کو تزویری شراکت میں ڈھالنے سے امریکہ کے اولین علاقائی مفادات کی ضمانت فراہم ہوجائے گی۔۱۹۷۳ء کی جنگ اور عرب ملکوں کی جانب سے مغرب کے لیے تیل پر اجتماعی بندش کے بعد کارٹر (۱۹۷۷- ۱۹۸۱)نے عرب- اسرائیل تنازع کے لیے ایک نئی سوچ کے نعرے کے ساتھ صدارت کا منصب سنبھالا۔انہوں نے مصر واسرائیل ، اور اسرائیل و شام کے درمیان مذاکرات کے عمل کو کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے (۱۹۷۸)اور مصر- اسرائیل معاہدے (۱۹۷۹)کے ذریعے آگے بڑھایا۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کے معاملے میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے ثالثی کی کوششوں پر اعتماد کو کمزور کیا۔
دریں اثناء ریگن برسراقتدار آگئے۔ اس وقت تک خلیج میں ایران-عراق جنگ اور افغانستان پر سوویت حملے سے بین الاقوامی منظر بدل چکا تھا۔اس لیے کارٹر کے برعکس ریگن فلسطین کے بارے میں کم پرجوش تھے۔ یوں ایک بار پھر شرق اوسط سے متعلق عالمی رویے نے علاقائی تناظر کو پس منظر میں دھکیل دیا۔تاہم ۱۹۸۲ء میں لبنان کی جنگ نے فلسطین کے مسئلے کو علاقائی امن پر اثر انداز ہونے والے معاملے کی حیثیت سے ازسرنو تازہ کردیا۔قیام امن کی کوششیں ناکام ہوئیں اور نکسن کی طرح ریگن نے بھی اسرائیل کو ایک قابل اعتماد حلیف باور کیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کی بناء پرجارج ایچ ڈبلیو بش (۱۹۸۹-۱۹۹۳) ایک فتح مند امریکہ کے حکمراں بنے۔کسی حریف کے خوف سے آزاد واحد عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کو علاقائی تنازعات کا تصفیہ کرانے کا موقع حاصل تھا۔ مگر امریکہ نے اپنے آپ کو ۱۹۹۱ء کی خلیج کی جنگ میں الجھا لیا۔ کویت کے بحران کے حل کے لیے، جسے ممکنہ طور پر بات چیت سے بھی طے کیا جاسکتا تھا، امریکہ کے اس غیرمعمولی اور غیر متوقع رویے نے، مشرق وسطیٰ کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس کے مقابلے میں فلسطین کے عشروں پرانے تنازع میں اس کے بالکل برعکس امریکہ کی تقریباً مکمل بے عملی کا سبب کیاہے۔ اس سوچ کے ازالے کے لیے بش سینئر کی حکومت نے قیام امن کا عمل شروع کیا،جسے ان کے بعد صدر کلنٹن (۱۹۹۳-۲۰۰۱) نے بھی نئے جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھا، مذاکرات اور معاہدے ہوتے رہے لیکن امن قائم نہیں ہوا ۔
جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں انقلابی نو قدامت پرستوں کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی رونما ہونے والے نائن الیون کا واقعہ، امریکہ کے لیے ’سرخ فوج‘ کے خطرے کو ’دہشت گردوں کے خطرے‘ سے بدلنے پر منتج ہوا۔ اس طرح امریکہ ایک بار پھر ایک عالمی جنگ میں مشغول ہوگیا جسے ایک بے چہرہ دشمن کو شکار کرنے کے ارادے سے شروع کیا گیا تھا۔شرق اوسط کے تنازعات کو اب’ دہشت گرد بمقابلہ اعتدال پسند‘ کی اصطلاحات میں بیان کیا جانے لگا۔علاقے کے لیے امریکہ کی پالیسی محض انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی توسیع بن گئی اور مقامی تنازعات کو بھی اسی سیاق و سباق میں دیکھا جانے لگا۔عراق پر حملے نے امریکی صدر کو یہ اعلان کرنے کا موقع فراہم کیا کہ ’’دنیا صدام حسین کے بغیرزیادہ محفوظ ہے‘‘ لیکن تنازعِ فلسطین کے رِستے زخموں کے ساتھ شرق اوسط کا حال خراب تر ہوتاگیا۔عراق کے معاملے میں امریکہ کی غیر معمولی عجلت کے ساتھ کی گئی کارروائی کے اعادے نے، ازسرنو اس تضاد کو نمایاں کردیا جو ہمسایوں کے خلاف جارحیت کے ارتکاب میں اسرائیل کی مدد کی صورت میں امریکی رویے میں موجود ہے۔ بش انتظامیہ کی ان پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اور پوری مسلم دنیا میں بالعموم امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دیا۔ مختصریہ کہ امریکی صدور نے اپنے اپنے دور کے بعض علاقائی اور عالمی حالات کے پیش نظر پالیسیاں اختیار کیں اور مشرق وسطیٰ کی حقیقی ضروریات کوملحوظ نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ سابق امریکی سربراہوں کی ان کوششوںاور ان کے نتائج کا تجزیہ، جن کے بارے میں صدر اوباما نے قاہرہ میں بات کی، اہم ہے۔
مسئلہ فلسطین – بنیادی معاملہ: جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے پہلے سال میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔ اس کی وجہ سے شرق اوسط سمیت ہر علاقے کے لیے ان کی پالیسیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اعلان کے تابع ہوگئیں۔ ان کی تمام پالیسیوں کی بنیاد ان کا یہ اعلان ٹھہرا کہ ’’ہمارے ساتھ یا دہشت گردوں کے ساتھ ‘‘۔ ان کی جانب سے ’مہذب دنیا‘ یا’ دہشت گردوں‘ میں سے کسی ایک کیمپ کو چن لینے کا مطالبہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں خصوصاً شام، ایران اور فلسطین سے بھی، حزب اﷲ، حماس اور ان دوسری تنظیموں کے لیے ان کی حمایت کے حوالے سے کیا گیا جنہیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔
اس کے باوجودصدر بش نے ’’مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے روڈ میپ‘‘پیش کیا۔ اس حوالے سے ان کے خطاب میں پیش کردہ دوریاستی حل کو ’’امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ رہنا‘‘ کہا گیا۔اس خطاب میں فلسطینی انتظامیہ سے ریاستی ذرائع ابلاغ میں تشدد کی حوصلہ افزائی کو امن کے عمل میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کو کہا گیا جبکہ قیام امن کے لیے شاہ عبداﷲ کی تجویز کو عربوں کی جانب سے اسرائیل کو تقریباً تسلیم کرلینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے سراہا گیا۔ بش نے اس موقع پر اسرائیل کی سلامتی سے امریکہ کی وابستگی کا واضح طور پر اظہار بھی کیا۔ تاہم انہوں نے مچل پلان کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر قطعی بند کرنے اور اقوام متحدہ کی قراداد ۲۴۲ اور ۳۳۸ کے تحت اسرائیلی فوجوں کو واپس بلانے پر بھی زور دیا۔انہوں نے اسرائیل سے فلسطینی کنٹرول والے علاقوں میں حملے بند کرنے اور ان جگہوں سے واپس چلے جانے کو بھی کہا جن پر ۲۰۰۰ء کے انتفاضہ کے بعد کی افراتفری میں قبضہ کرلیا گیا تھا۔
جارج بش سے پہلے صدر بل کلنٹن کی کوششیں بھی بے نتیجہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں اگرچہ سردجنگ کے ختم ہوجانے کی وجہ سے سمجھا جارہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لیے سازگار حالات مہیا ہوگئے ہیں۔کلنٹن نے بھی اسرائیل کی سلامتی کو اولین ترجیح قرار دیا اور اس موقف کو برقرار رکھا کہ ’علاقائی امن‘ اسرائیل کی سلامتی سے مشروط ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ امریکہ اس مقصد کے لیے علاقے میں اسرائیل کی فوجی برتری قائم رکھنے کے لیے اپنے وعدے پورے کرتا رہے گا۔مذاکراتی عمل اقوام متحدہ کی محولہ بالا قراردادوں کی روشنی میں دوریاستی حل اور دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے نکات پر مبنی رہا۔کلنٹن نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۸ء کو غزہ میں فلسطینی قومی کونسل سے اپنے خطاب میں فلسطینیوں کو پرتشدد مزاحمتی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی بند کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا:
’’ ہر با اثر فلسطینی کو – خواہ وہ معلم ہو یا صحافی، سیاستداں ہو یا کمیونٹی لیڈر – بچوں کے ذہنوں سے خودکش بمباروں کے دلکش تاثر کے ازالے، ایک طرف امن کی بات اور دوسری طرف نفرت کی تبلیغ کی روش کے خاتمے ، اسکول کے بچوں میں امن کے فوائد اور جنگ کے نقصانات سے آگہی کے فروغ، اور تشدد کے چکر کی بندش کو لازماً اپنا مشن بنا لینا چاہیے۔ ‘‘
تاہم کلنٹن مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے تضاد کا اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔فلسطینیوں کی تالیف قلب کے لیے کلنٹن اپنے اس خطاب میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکے وہ صرف یہ تھا کہ اسرائیلی بستیاں اوسلو معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ان بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے اقدامات تو درکنار،کلنٹن نے کبھی ان کے ناجائز اور غیرقانونی ہونے کی بات بھی نہیں کی۔حتیٰ کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو اس بناء پر تعطل کا سامنا کرنا پڑا کہ اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے یہودی بستیوں کے معاملے کو محض ’امن میں رکاوٹ‘ کا نام دینے کو کافی سمجھا۔
کلنٹن کے پیش رووں میں سے جارج ایچ ڈبلیو بش نے غالباً امریکہ پر اس حالت میں حکومت کی جب وہ اپنی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور تھا۔اس کے باوجود یہودی بستیوں کے غیرقانونی ہونے کاان کی حکومت کی جانب سے کبھی دوٹوک طریقے سے اعتراف نہیں کیا گیا۔جب ایک بار ان سے ان کے وزیر خارجہ جیمس بیکر کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا کہ یہودی بستیاں امن میں رکاوٹ ہیں تو بش سینئر نے محض بالواسطہ طور پر اس خیال کی یوں تائید کی کہ ’’وزیر بیکر اپنی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے اور جو کچھ انہوں نے کہا میں اس کی پرزور حمایت کرتا ہوں ۔۔۔ اگر ان بستیوں کا سلسلہ رک جائے تو امن کے قیام میں بڑی مدد ملے گی۔‘‘
صدر ریگن کی حکومت(۱۹۸۱- ۱۹۸۹)بھی اس حوالے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ریگن کے ۱۹۸۲ء کے پلان میں یہودی بستیوں کے غیرقانونی ہونے کا تو کوئی ذکر نہیں تھا تاہم بستیوں کی تعمیر کو ’’منجمد‘‘ کرنے کا مطالبہ اس صراحت کے ساتھ کیا گیا تھا کہ: عبوری مدت کے دوران بستیوں کی تعمیر کے لیے کسی مزید زمین کے استعمال کی امریکہ حمایت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیر کے انجماد کی راہ کا فوری طور پر اپنایا جانا ، کسی بھی دوسرے اقدام کی نسبت، ان مذاکرات کے لیے اعتماد کی فضاپیدا کرنے کا سبب بنے گا۔مزید بستیوں کی تعمیر اب کسی بھی طرح اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری نہیں۔ یہ عمل عربوں کے اعتماد کو گھٹانے اور آزادانہ اور منصفانہ طور پر حتمی فیصلوں تک پہنچنے کو مشکل بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ بہرکیف،اس وقت دو ریاستی حل کا کوئی نظریہ نہیں تھا،اس کے بجائے اردن کے تعاون کے ساتھ’ مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کی خود مختار حکومت ‘ کے تصور کی تشہیر کی گئی تھی۔
صدر جمی کارٹر نے البتہ ان بستیوں کو واضح طور پر غیرقانونی قرار دیاتھا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بہت کھل کر کہا ـ: بستیوں کے معاملے میں ہمارا موقف بہت واضح ہے۔ ہم انہیں قانونی نہیں سمجھتے۔ لنڈن بی جانسن،رچرڈ نکسن، جیرالڈ فورڈ اور کارٹر کی حکومتیں چوتھے جنیوا کنونشن کی دفعہ ۴۹ کے چھٹے پیراگراف کے حوالے سے بستیوں کے غیرقانونی ہونے کے موقف پر قائم رہیں۔ صدر اوباما نے اسرائیلی بستیوں کے معاملے میں ان سابق امریکی سربراہان کے موقف کی پیروی کی ہے۔ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے نومبر ۲۰۰۹ء میں اپنے دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بستیوں پر امریکہ کے اس چالیس سال قدیم مخالفانہ موقف کا پرزور طور پر اعادہ کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پورے مسئلہ فلسطین کا محض ایک چھوٹا سا جزو ہے، اس کے باوجود امریکی سربراہوں کی بیشتر کاوشیں اس پر صرف ہورہی ہیں۔اس معاملے کے دوسرے کئی بہت اہم پہلو ہیں مثلاً فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کا حق،یروشلم کا قضیہ، فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے حملے جن کے نتیجے میں جنگ کی سی صورت حال رونما ہونے کا خطرہ رہتا ہے، اور بحیثیت مجموعی پورے تنازع فلسطین کے حتمی حل کی جانب پیش قدمی۔
دوسرے متعلقہ معاملات: مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے میں امریکی سربراہوں کی پالیسیوں کے اس تقابلی جائزے کے بعد علاقے کے دیگر متعلقہ مسائل یعنی عراق وا یران اور ان اقدار کے حوالے سے جن کا ذکر صدر اوباما نے قاہرہ کے خطاب میں کیا، مختلف امریکی حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مناسب ہوگا۔
عراق: عراق مختلف وجوہ سے مختلف اوقات میں امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا محور رہا ہے۔ ایران- عراق جنگ کے دوران ریگن انتظامیہ نے علاقے میں ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے صدام حسین کی حمایت کی۔اسے عراق کے معاملے میں امریکہ کی سوچ میں تبدیلی سمجھا گیا کیونکہ سرد جنگ کے پورے دور میں عراق امریکہ کے مخالف بلاک کا حصہ رہا تھا۔ تاہم ۱۹۹۱ء کی جنگ خلیج نے، جو کویت پر عراق کے حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی، صورت حال کو تبدیل کردیا۔ بسا اوقات بش سینئر پر نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ انہوں نے صدام حکومت کے خاتمے کے کام کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔کویت کے بحران کے وقت سے عراق وائٹ ہاؤس سے دیے جانے والے آزادی، جمہوریت اور انصاف وغیرہ کی قدروں پر مشتمل خطبات کا محور رہا ہے۔ کلنٹن انتظامیہ نے صدام کو مہلک ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے عراق کو مسلسل میزائل حملوں کا نشانہ بنائے رکھا مگر ان پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے صدام حکومت کے خاتمے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ ستم ظریفانہ طور پر آزادی اور کشادہ روی سے امریکہ کی وابستگی کے نعروں نے، تشدد اور آمریت سے جنگ اور مہلک ہتھیاروں کے خطرے سے نجات دلانے کے بہانے ۲۰۰۳ء میں عراق کو فتح کرلینے کے لیے چھوٹے بش کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے صدام حسین کو’ امریکہ کے دشمن ‘کا نام دیا کیونکہ ان کے بقول ’ صدام نے اپنے پڑوسیوں پر حملے کیے تھے‘ اور ’وہ فلسطین میں خودکش بمباروں کو پیسے دے رہے تھے‘۔
اس پس منظر میں یہ بات دلچسپ ہے کہ اوباما کی قاہرہ کی تقریر میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ عراق کے معاملے سے نمٹنے کے بہتر طریقے ان کے نزدیک کیا ہوسکتے تھے۔ انہوں نے فوجوں کی واپسی کی جو حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بھی پچھلی حکومت کی پالیسی سے مختلف نہیں ۔نومبر ۲۰۰۸ء کے وسط میں امریکہ اور عراق کی حکومتوں میں یہ معاہدہ طے پاگیا تھا کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۱ء تک تمام امریکی فوجیں عراق سے نکل جائیں گی اور لڑنے والی فوج اس سے بھی بہت پہلے یعنی ۳۰ جون ۲۰۰۹ء تک ہی عراق سے چلی جائے گی۔ جبکہ صدر اوباما نے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ منصب سنبھالنے کے بعد وہ ۱۶ مہینوں میں عراق سے لڑنے والی فوج واپس بلالیں گے۔قاہرہ میں اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ جولائی ۲۰۱۰ء تک عراقی شہروں سے اپنے لڑنے والے فوجی دستے اور ۲۰۱۲ء تک تمام افواج واپس بلالے گا۔اس سے عیاں ہے کہ ان کی حکمت عملی سابقہ حکومت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔
صرف ایک چیز ہے جسے مختلف کہا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کے بجائے افغانستان کو مرکزی محاذ قرار دیا۔ تاہم افغانستان میں مزید فوج بھیج کر بڑی یلغار کا خیال بھی اوباما کا اپنا نہیں تھا ، صدر بش ۹ ستمبر ۲۰۰۸ء کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں یہ نسخہ تجویز کرچکے تھے ۔
عراق میں اوباما کی ذمہ داریاں اپنے پیش رووں سے کہیں زیادہ ہیں۔عراق کا سیاسی استحکام اور مستقبل کا نقشہ اور امریکہ کی واپسی کے بعد عراقیوں کی نگاہ میں اس کی حکومت کا اعتبار وہ امور ہیں جو عراق کے معاملے میں اوباما کی کارکردگی کا تعین کریں گے۔
ایران: ایران بھی صدر بش کی کرخت پالیسیوں کا ہدف بنا رہا۔ نائن الیون نے بین الاقوامی حالات کو جو رنگ دیا اس میں امریکہ کے لیے ایران کو ان ریاستوں میں شامل کرنا آسان ہوگیا جنہیں اس کی جانب سے برائی کا محور قرار دیا گیا تھا۔اس کی وجہ حماس اور حزب اﷲ کے لیے ایران کی حمایت تھی۔۲۰۰۶ء میں ، لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران،امریکہ نے ایران اور حزب اﷲ پر لبنان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کا الزام لگایا جبکہ عراق میں تشدد اور عدم استحکام کے فروغ پر مبنی اس کے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ بش نے ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کی پالیسی اختیار کی تاکہ اسے جوہری مسئلے پر امریکہ کی بات ماننے پر مجبور کیا جاسکے ، اس کے نتیجے میں ایران کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پالیسی ۲۰۰۳ء کے بعد کی صورت حال میں امریکہ کے علاقائی مفادات سے متصادم تھی۔ عراق کی شیعہ آبادی پر ایران کے اثرات کے پیش نظر ، ایران کو خوش رکھنا امریکہ کے لیے لازماً مفید ہوتا، لیکن جارج بش نے اپنی ایران پالیسی صدر کارٹر اور ان کے بعد آنے والے اپنے پیش رووں کی ایران مخالف پالیسیوں کے مطابق تشکیل دی۔بنیادی طور پر یہ صدر ریگن تھے جنہوں نے امریکہ-ایران تعلقات کو یوٹرن دیتے ہوئے ایران کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا۔تاہم اسلامی انقلاب سے سے پہلے ایران علاقے میں امریکہ کا پولیس مین اور خلیج میں امریکی مفادات کا نگراں تھا۔صدر کارٹر کے الفاظ میں،ایران دنیا کے ایک انتہائی مشکل علاقے میں استحکام کا جزیرہ تھا۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی ایرانی آمریت امریکہ کے علاقائی مفادات کے تحفظ کی ضامن تھی۔ امریکہ کی جانب سے مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کے مقابلے میں شاہ کی آمرانہ حکومت کی پشت پناہی کی وجہ بھی یہی تھی۔ مصدق حکومت ایرانی تیل پر بڑی طاقتوں کے کنٹرول کے لیے سنگین خطرہ تھی۔اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آئزن ہاور حکومت نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں تعاون کا وہ فیصلہ کرڈالا جس میں صدرٹرومین ہچکچارہے تھے۔ یہ مدد تیل کی کمپنیوں کے عالمی کارٹل کو ایرانی تیل کی پیداوار اور فروخت پر مؤثر کنٹرول اور منافع میں پچاس فی صد کی شرکت کی ضمانت پر فراہم کی گئی۔
اس پس منظر میں ، صدر اوباما کی جانب سے نوروز کے موقع پر، ۱۹۵۳ء کے انقلاب جیسی امریکی خارجہ پالیسی کی بھاری غلطیوں اور ایران کے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے حق کو این پی ٹی کی پابندی کیے جانے کی صورت میں تسلیم کیے جانے کے ساتھ ایرانیوں کو غیر مشروط بات چیت کی پیشکش، وائٹ ہاؤس کی جانب سے بہت اہم اشارہ ہے۔اس کے باوجود ایران نے الزام لگایا کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے ایران کے صدارتی انتخابات سے جنم لینے والی بے چینی کو ایران کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔اس صورت حال نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔اس کے ساتھ ساتھ صدر اوباما نے ایران کے خلاف پابندیوں کی مہم بھی شروع کردی ، بالکل اسی طرح جیسے چھوٹے بش نے اپنے یورپی حلیفوں کے تعاون سے کیا تھا۔
اقدار: ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے تمام فوجی کارروائیاں، مختلف ملکوں کے خلاف پابندیوں کے نفاذ اور فوجی اتحادوں کی تشکیل کے اقدامات اس دعوے کے ساتھ کیے جاتے رہے ہیں کہ ان کا مقصد جمہوریت، خواتین کے حقوق، مساوی مواقع، مذہبی آزادی اور تعلیم وغیرہ کا فروغ ہے۔ ان اقدار سے امریکہ کی وابستگی کے اِن دعووں کا سراغ جارج واشنگٹن کے دور ہی میں مل سکتا ہے۔ سب سے زیادہ انقلابی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی مسلسل دعوے کیے کہ عراق کے خلاف جنگ کا مقصد جمہوریت، آزادی، کشادہ روی اورانسانی حقوق کی اقدار کا فروغ ہے، اگرچہ بین الاقوامی برادری یقین رکھتی تھی کہ عراق کی جنگ کے حقیقی مقاصد اور خواہ کچھ بھی ہوں مگر بش حکومت جو کچھ بتارہی ہے وہ کسی صورت نہیں ہیں۔اس کا ثبوت عراق پر حملے کے خلاف وہ عظیم الشان احتجاجی مظاہرے ہیں جو پوری دنیا میں ہوئے۔صدر اوباما نے بھی اسی طرح اپنی تردید آپ کرتے ہوئے ان اقدار کو عرب دنیا میں فروغ دینے کی بات اس جگہ کھڑے ہوکر کی جہاں ۱۹۶۷ء سے ایمرجنسی نافذ ہے۔ ان کے قول اور عمل میں اس تضاد کا ایک انتہائی عملی سبب واشنگٹن کو دی گئی جارج کینان کی اس پالیسی ہدایت میں تلاش کیا جاسکتا ہے کہ:
ہمیں پسند کیے جانے ، یا بین الاقوامی سطح پر ایثار و بے نفسی کا سرچشمہ سمجھے جانے کے خبط سے جان چھڑالینی چاہیے۔ہمیں اپنے بارے میں اپنے بھائیوں کے نگہبان ہونے کا تاثر قائم کرنے اور انہیں اخلاقی یا نظریاتی ہدایات دینے کی کوشش سے باز آجانا چاہیے۔ ہمیں انسانی حقوق، معیار زندگی کی بہتری اور جمہوریت کی ترویج جیسے مبہم اور غیرحقیقی مقاصد کے بارے میں بات کرنا بند کردینا چاہیے۔وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سیدھے طاقت کی زبان میں بات کرنا اور معاملات طے کرنے ہوں گے، اس وقت یہ غیرحقیقی نعرے ہماری راہ میں جس قدر کم رکاوٹ بنیں، اتنا ہی اچھا ہوگا۔
حاصل کلام: صدر اوباما اور دوسرے امریکی سربراہوںکے اقدامات کے اس تقابلی جائزے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ تبدیلی کے علم بردار اوباما نے مشرق وسطیٰ بالخصوص علاقے کے بنیادی مسئلے تنازع فلسطین کے حل کے لیے کیا واقعی کوئی انقلابی یا کم از کم کسی حد تک مختلف قدم اٹھایا ہے؟تاہم اس تقابل سے واضح ہے کہ اوباما اپنے پیش رووں کی طرح یہودی بستیوں کی غیرقانونی حیثیت، معاہدوں اور قراردادوں کی پابندی کے مطالبات، ایک دوسرے کے باقی رہنے کے حق کے احترام، اور ایسی دوریاستوں کی موجودگی کے حوالے سے جن میں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں، محض زبانی جمع خرچ کررہے ہیں۔اسی طرح اسرائیل سے امریکہ کے ناقابل شکست تعلق اور فلسطین کے انسانی بحران کے لیے صرف زبانی ہمدردی کی روش پر قائم رہ کر بھی وہ سابق امریکی سربراہوں کے طرز عمل کا اعادہ کررہے ہیں۔ان کے بیان کے یہ الفاظ کہ: ’مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا مقصد آزاد یہودی ریاست کی حیثیت سے اسرائیل کا تحفظ ہے کیونکہ یہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے‘ ۔۔۔ ہوبہو سابق امریکی قائدین کے بیانات کا عکس ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا اکتوبر ۲۰۰۹ء کا دورۂ مشرق وسطیٰ جس نے معاملات کو پیچیدہ تر بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اس حقیقت کی ایک اور گواہی ہے کہ اوباما انتظامیہ اپنی پیش رو امریکی حکومتوں ہی کے راستے پر چل رہی ہے۔امریکہ اب یہودی بستیوں کو’ منجمد‘ کرنے کے اپنے سابقہ مطالبے سے بھی پیچھے ہٹتا معلوم ہوتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کے حوالے سے ’ تحمل ‘ (restraint) یعنی منجمد نہ کرنے کی پیش کش کو بے مثال (unorecedented) قرار دے کر یہی ظاہر کیا ہے۔ نیز اپنے دورے میں انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ امریکہ محمود عباس کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند کیا جائے۔یہ انحراف ظاہر کرتا ہے کہ بستیوں کے معاملے میں صدر اوباما نے جس ناراضگی کا اظہار پہلے کیا تھا وہ محض مسلم دنیا کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھا۔
اسی طور پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ گولڈ اسٹون رپورٹ کو جس میں ۲۰۰۹ء کے اوائل میں اسرائیل کو غزہ کے تنازع میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا، مسترد کردیا۔یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے لائی گئی تھی مگر امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے غیرقانونی اور غیر انسانی اقدامات کی عالمی برادری کے علی الرغم حمایت کی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تقریباً ہر قرارداد کو امریکہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ اسرائیل اور امریکہ کے اندر اسرائیلی لابی کا شدید دباؤ ہے۔ واشنگٹن میں اسرائیلی لابی انتہائی متحرک اور مؤثر ہے۔اس کی وجہ امریکی کانگریس میں اسرائیل نواز نمائندوں کی موجودگی ہے۔اسرائیلی لابی کی بہت سی آئینی تنظیموں میں سے ایک امریکن اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی ہے ،امریکی ایوان نمائندگان کے ایک سابق اسپیکر نیوٹ گنگ رِچ کے بقول یہ کرۂ ارض کا مؤثر ترین مفاداتی گروپ ہے۔اس کے علاوہ کئی دوسری طاقتور لابیاں مثلاً ملٹری انڈسٹریل کمپلکس، تیل کی صنعت اور مختلف کارپوریشنیں، امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ ان مفاداتی گروپوں نے امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی خصوصاً عراق کی جنگ اور علاقے کے دوسرے تنازعات سے براہ راست فائدہ اٹھایا ہے۔ صدراوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس ۲۰۱۰ء میں ان لابیوں کے حد سے بڑھے ہوئے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان کو سختی کے ساتھ حدمیں رکھنے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی بالخصوص اسرائیل- فلسطین تنازع کے حوالے سے اپنے اس عزم میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔
سابق امریکی سربراہوں اور صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے اس تقابلی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پرفریب الفاظ اور اصطلاحات کی آڑ میں اوباما بھی اپنے پیش رووں ہی کے راستے پر چل رہے ہیں، جبکہ پوری دنیا کے مسلمان ان سے ایسے عملی اقدامات کی توقع رکھتے تھے جو اسرائیل کو سابقہ معاہدوں کی پابندی پر مجبور کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی خصوصاً غزہ کے محاصرہ کے خاتمے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ، فلسطینی مہاجروں کے مستقبل کے لیے درست فیصلوں، یروشلم کے معاملے کے منصفانہ تصفیے، اور آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا ذریعہ بنیں۔
اسرائیل کی برملا بے جا حمایت،اس کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرائم کی پشت پناہی، فلسطینیوں سے صرف زبانی وعدے،چالیس سال سے جاری یہودی بستیوں کی تعمیر پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو ، بستیوں کی تعمیر بند کرانے کے کسی عملی اقدام کے بغیر تشدد سے باز رہنے کی تلقین ، یروشلم اور مہاجروں کے مسئلے پر فلسطینیوں کو مطمئن کرنے میں ناکامی۔۔۔ ان سب حوالوں سے صدر اوباما اپنے پیش رو امریکی سربراہوں سے ذرا بھی مختلف نظر نہیں آتے۔ اوباما کی اس کارکردگی اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ان کے قول و عمل سے اس کے سوا کوئی اور نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دور میں بھی مشرق وسطیٰ خصوصاًفلسطین کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
(تلخیص و ترجمہ: ثروت جمال اصمعی)
جواب دیں