پاک چین اقتصادی راہداری کے مواقع اور رکاوٹیں – پاکستان کی صنعت و تجارت کے لیے امکانات
پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد سمیٹنے کے لیے پاکستانی کاروباری برادری اپنی استعداد میں اضافہ کرے
پاک چین اقتصادی راہداری ان چھہ عظیم منصوبوں میں سے ایک، لیکن اہم ترین منصوبہ ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں بڑی جیو اکنامک تبدیلیاں رونما ہو نگی اور نئے عالمی قدری سلسلے ( گلوبل ویلیو چینز) جنم لیں گے۔ پاکستانی کاروباری برادری کو ان کا حصہ بننے اور ان سے ممکنہ فوائد سمیٹنے کے لیے تحقیق و استعداد کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار ۲۵ اگست ۲۰۱۶ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے ایک سیمینار میں چینی اقتصادی امور کے ماہر ظہیر الدین ڈار نے کیا۔ سیمینار کا عنوان تھا: "پاک چین اقتصادی راہداری کے مواقع اور رکاوٹیں – پاکستان کی صنعت و تجارت کے لیے امکانات”۔
اس کی صدارت سابق سیکرٹری جنرل مالیات سعید احمد قریشی نے کی اور میزبانی کے فرائض ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے ادا کیے۔ ظہیر ڈار نے بتایا کہ راہداری منصوبے کے نتیجے میں پاکستانی تاجر و صنعت کار چینی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر کے اپنی استعداد، پیداوار اور منافع میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ ایک چینی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ توانائی، خوراک، زرعی مصنوعات، لائواسٹاک، تعمیرات، ٹرانسپورٹ، اسٹیل، ہلکی انجینئرنگ، پلاسٹک، ٹیکسٹائل، مائننگ، لوہے کے علاوہ دیگر دھاتوں، اسمبلی آپریشنز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروبار اور صنعتیں سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ڈار کے مطابق اس عظیم پیش رفت میں امریکہ، یورپین یونین اور بحرالکاہل کے ممالک رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے گٹھ جوڑ کا آغاز ہو چکا ہے تاہم چینی رویہ اس حوالے سے مثبت ہے اور عالمی جیواکنامک منظرنامہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کو مشترک کر کے ہی تشکیل دیا جا ساکتا ہے۔
جواب دیں