پاک ایران تعلقات -نئے علاقائی اور عالمی تناظر میں
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام 18مئی 2011ء کو پاک ایران تعلقات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے اسلام آباد میں ایرن کے سفیر جناب ماشاء اللہ شاکری نے ایران کی جانب سے اس پیش کش کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایران کی حکومت تیار ہے۔ پاکستان آج کل بجلی اور گیس کے جس بحران سے گزر رہا ہے، اس بحران سے بہ آسانی نکلنے کے لیے ہم ہرممکن تعاون فراہم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنی اندرونی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا ملک ہے اور قریبی ممالک کو بجلی فراہم کر رہا ہے جن میں افغانستان، عراق، ترکی اور آرمینیا شامل ہیں۔ 2008ء میں پاکستان اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان ایران سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی خریدنے پر آمادہ تھا اور ایک سو میگا واٹ اُسے صرف گوادر کے لیے درکار تھی۔ ایران نے اس معاہدہ کے مطابق اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے اور پاکستان کی جانب سے اپنے حصے کے کام کی تکمیل کا منتظرہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کوصرف بجلی فروخت کرنے کی حد تک دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اور گنجائش میں اضافہ کرنے کے پراجیکٹ میں تعاون کے لیے بھی تیار ہے۔ توانائی کے شعبہ میں پاک ایران تعاون کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایران پہلے ہی بلوچستان کے لیے چالیس میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ ایرانی کمپنیاں صوبہ سندھ میں بجلی پیدا کرنے کے دو پراجیکٹس کی تنصیب کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ دیگر وجوہات کے علاوہ پاکستان میں بنکوں کا طریق ِ کار اور نوکر شاہی کا رویہ پراجیکٹس کی تیز رفتار تکمیل کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔
ایرانی سفیر نے پائپ لائن کے ذریعے ایرانی قدرتی گیس کی پاکستان کو فراہمی کے حوالہ سے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدہ کے مطابق ایران نے 56انچ کی گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک پہنچانے کا کام مکمل کر لیا ہے اور اب ہم منتظر ہیں کہ پاکستان ہمیں بتائے کہ اس گیس پائپ لائن کو پاکستان کی کس گیس پائپ لائن کے ساتھ جوڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ پاکستان افغانستان کے راستے پائپ لائن بچھا کر ترکمانستان سے گیس در آمد کرنا چاہتا ہے اور ایران سے گیس کی فراہمی کے سب سے آسان، سستے، محفوظ اور قابلِ عمل حل کو نظر انداز کر رہا ہے۔ انہوں نے ایرانی صدر احمد ی نژاد کے الفاظ دہرائے کہ ’’پاکستان کے ساتھ تعاون میں اضافے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔‘‘ ایرانی سفیر نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ پاکستان پر بیرونی قوتوں کا دبائو ہے جو پاکستان کو ایران سے دُور رکھنا چاہتی ہیں۔
پاک ایران تعلقات کو تاریخی پس منظر میں دیکھنے کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران نہ صرف پڑوسی ملک ہیں بلکہ نظریاتی، مذہبی تاریخی اور ثقافتی رشتوں اور دوستی کی گہری بنیاد یں رکھتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران تھا اور اسی طرح 1979ء کے ایرانی اسلامی انقلاب کو سب سے پہلے پاکستان کی حکومت کی جانب سے تسلیم کیا گیا۔ معمولی اتار چڑھائو سے قطعِ نظر پاکستان کی مختلف حکومتوں کے ادوار میں مجموعی طور پر پاک ایران تعلقات ہمیشہ ہی بہت اچھے رہے ہیں۔
مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں سے رابطہ مؤثر بنایا جائے۔ تجارتی حجم میں اور زیادہ اضافہ ہو۔ میڈیا کے محاذ پر ہمارے تعلقات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ صحافیوں کا باہمی تعامل بڑھنا چاہیے۔ ثقافت کے شعبہ میں ایران چاہتا ہے کہ ایرانی مصنوعات اور کتب کی نمائشیں، علمی سیمینار اور فلموں کا تبادلہ بڑے پیمانے پر ہو۔
ہم حکومتِ پاکستان سے تحریر ی درخواست بھی کر چکے ہیں کہ ہمیں علامہ اقبال پر ایک دستاویزی فلم بنانے کی اجازت دی جائے۔ علامہ اقبال جدید اسلامی دنیا کے عظیم مفکر اور رہنما ہیں۔ وہ اپنے فارسی کلام کی وجہ سے ایران میں بھی بہت مقبول ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ سال اپنے پیغامِ حج میں کشمیریوں کی مدد اور حمایت کے لیے مسلم دنیا کو متوجہ کیا تھا۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ہم نے آئی پی ایس میںپڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر افہام و تفہیم، خیر سگالی کے فروغ اور بے تکلف دو طرفہ اظہار خیال اور مکالمہ کا سلسلہ شروع کیاہے۔ سب سے پہلے چین کے سفیر تشریف لائے تھے، آج دوست ملک ایران کے سفیر ہمارے مہمان ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان، ایران اور افغانستان کا باہمی تعاون اور تعلق خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں ابھرتی عوامی تحریکوں کے واقعات جمہوری اور اسلامی رُخ کا پتہ دیتے ہیں۔ ہمیں چھوٹی سطح کے مسائل میں الجھنے کے بجائے بڑی سطح کے مسائل پر وسیع النظری کے ساتھ غوروفکر کرتے ہوئے حکمتِ عملی کے امور طے کرنے چاہئیں۔ بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔ خصوصاً مسلمانوں میں فرقہ وارانہ بنیاد پر لڑائی کروانے کے ناپاک منصوبے کو حسن تدبیر سے ناکام بنا دیا جائے۔ اس موقع پر انہوں نے سابق امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر کے الفاظ یاد دلائے کہ ـ’’اسرائیل کی بقااور تحفظ مسلم ملکوں کی باہمی لڑائی میں مضمر ہے۔‘‘
پروگرام کے موڈریٹر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے چیئرمین جناب تنویر احمد خان نے کہا کہ پاکستان ہرگز کمزور ملک نہیں ہے۔ نہ سیاسی لحاظ سے اور نہ عسکری اور معاشی اعتبار سے۔ یہ بات ہماری قیادت کو بھی سمجھنی چاہیئے کہ آپ دوسروں کی نظر میں کمزور ہیں اگرآپ خود کو کمزور حیثیت میں پیش کریں اور آپ دوسروں کی نظر میں مضبوط ہیں اگر آپ خود کو مضبوط حیثیت سے پیش کریں۔ ہمارے حکمران طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکہ سے مرعوب ہیں اور اس کے سامنے مضبوط مؤقف اختیار نہیں کرتے۔ امریکہ مسلم معاشروں میں گہری تبدیلیاں لانے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔وہ ان معاشروں کی مسلم شناخت ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایران کے لیے حکومتی سطح پر کچھ تحفظات پائے جاتے ہیں جو بیرونی دبائو کے باعث ہیں ورنہ عوام کی سطح پر ایران کو ہمیشہ دوست اور خیر خواہ کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔ ایران نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ پہلے وہ انقلاب ’’برآمد‘‘کرنے کی بات کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں کہتے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اور ایران کو سیاسی اور عسکری سطح پر بھی تبادلہ خیال کی روایت کو تازہ کرنا چاہیئے اور مل بیٹھ کر چھوٹے موٹے مسائل حل کرتے ہوئے مل کر آگے بڑھنا چاہیئے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اس سیمینارمیں مختلف ممالک میں خدمات انجام دینے والے پاکستان کے سابق سفیروں کی بڑی تعداد کے علاوہ بین الاقوامی اُمور سے متعلق یونیورسٹی اساتذہ، ماہرین اور اہل دانش کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
نوعیت: روداد سیمینار
18مئی 2011ء
جواب دیں