پاکستان اوروسطی ایشیا کی ریاستوں کےتعلقات پر علمی کانفرنس
پاکستان کو وسطی ایشیا کےممالک کےساتھ اپنےوسیع بنیاد تعلقات کو ترقی دینی چاہیے، خصوصاً معیشت اورتوانائی کےشعبوں میں یہ تعلقات ناگزیر ہیں۔ نیزان ممالک کےعوام سےپاکستان کےعوام کےبراہِ راست رابطوںمیں اضافےکےلیےمؤثر پالیسیاںبنائی جانی چاہئیں۔ ۱۹۹۱ء میںخود مختاری حاصل کرنےکےبعد وسطی ایشیا کےیہ ممالک نہ صرف وافر قدرتی وسائل کی وجہ سےبلکہ اپنےجغرافیائی محل و قوع کےباعث دنیا بھر کی توجہات کا مرکز بن گئےہیں۔دنیا کی بڑی اورابھرتی طاقتوںکےدرمیان ان قدرتی وسائل کےحصول اورمواقع سےاستفادہ کےلیےمقابلہ کےماحول نےاس ریجن کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں قدرےرکاوٹ پید اکی ہے. ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےزیر اہتمام ایک کانفرنس میں کیا گیا۔کانفرنس کا موضوع تھا ،’’توانائی، تجارت، راہداری پاکستان اور وسطی ایشیا کےتعلقات بالخصوص قازخستان‘‘ سیمینار کےشرکاء میں اسلام آباد میں مقیم مختلف ممالک کےسنئیرسفارت کار ،مختلف ممالک میںخدمات انجام دینےوالےسابق پاکستانی سفارت کار، بین الاقوامی تعلقات کےمحققین، اساتذہ اورمعروف اہل علم و دانش شامل تھے۔
تاریخی پہلو پر روشنی ڈالتےہوئےمقررین نےکہا کہ پاکستان کےعوام وسطی ایشیا سےگہری قربت محسوس کرتےہیں جو صدیوں پر محیط مذہبی، علمی اورسیاسی تعلقات کا پس منظر رکھتےہیں۔ کمیونسٹ سویت یونین کےزیرتسلط تقریباً 70سال گزار لینےکےبعد اب وسطی ایشیا کی ان ریاستوںنےآزاد و مختار ملکوں کی حیثیت سےاپنا جداگانہ تشخص قائم کر لیا ہےاوراپنےمخصو ص سماجی و سیاسی حالات کی مطابقت میںسرمایہ داری نظام کی بنیادوںپر نیا معاشی و سیاسی نظام تشکیل دےلیا ہے۔ اپنی آزادی کےفوراً بعد ہی ان ریاستوںنےاپنی خارجہ پالیسی میں غیر جانبداری کی روش اختیار کی جو بنیادی طور پر ان کےمعاشی اہداف اورمفادات کےعین مطابق تھی۔ تاہم 11ستمبر 2001ء کےبعد عالمی سیاسی صورتِ حال میں جوتبدیلیاںرونما ہوئیں انہوںنےان ریاستوں کی خارجہ پالیسیوںپر بھی اپنےاثرات ڈالے۔جہاں روس نےان ریاستوں کی پالیسیوں اورفیصلوںپر اثر انداز ہونےکی مسلسل کوششیںجاری رکھیں وہاں امریکہ اوریورپی یونین نےبھی مختلف طریقوں سےان ریاستوں کےاندر اپنےاثرات بڑھانےکےلیےسخت محنت کی۔ تیسری جانب چین بھی کم از کم اقتصادی مقابلہ کےمیدان میں ایک اہم عالمی کھلاڑی کی حیثیت سےشامل ہے۔
آمرانہ طرزِ حکومت رکھنےوالی اورمعاشی ترقی کرتی ان ریاستوںسےبین الاقوامی برادری میں قدرےتشویش کا ایک پہلو سامنےآیا تاہم ان ریاستوںنے’’ہمہ جہت بتدریج ترقی ‘‘کا راستہ اپنایا ہے۔
سو ویت یونین کی تحلیل کےبعد سےپاکستان نےان علاقائی ریاستوںسےتعلقا ت استوار کرنےاورانہیںیہ باور کرانےکی پوری کوشش کی ہےکہ پاکستان وسطی ایشیا اوربا قی دنیاکےدرمیان توانائی کی ترسیل اوردیگر وسائل کی برآمد کےلیےراہداری کی بہتر خدمات پیش کرسکتا ہے۔پاکستان نےترقی کےایجنڈےمیںمزیدپیش رفت کےلیےحالات کی سازگاری سےفائدہ اٹھاتےہوئےوسطی ایشیا کی ان ریاستوںکےساتھ 150سےزائد مختلف معاہدات اورمفاہمت کی یادداشتوںپر دستخط کیےہیں۔افغانستان میںعدم ِ استحکام اورپاکستان میںسیاسی عزم کےفقدان کےباعث ان معاہدوںاوریادداشتوںپر مناسب توجہ اورعمل درآمد نہ ہو سکا۔
سیمینار میںماہرین نےتجویز دی کہ وسطی ایشیا کی ان ریاستوںسےان کےاپنےحالات اورمخصوص معاملات کےلحاظ سےالگ الگ تعلق اور رابطہ استوار کیا جائے۔یہ بھی تجویز کیا گیا کہ پاکستان کےلیےان ریاستوںسےدو طرفہ تعلقات کےمقابلہ میںعلاقائی معاشی تعاون کا ایسا انتظام زیادہ بہتر ہو گا جس میںروس،بھارت،چین اورایران بھی شامل ہو۔سیمینار میںشریک ا سکالرز نےحکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ ’’’کوئٹہ پلان آف ایکشن ‘‘ کی طر ف رجوع کرےجس پر نوّےکی دھائی کےآغاز میںدستخط ہوئےتھےاور ان ریاستوںسےتعلقات کےفروغ کےلیےنئےحالات کےتناظر میںاس پلان پر عمل کی نئی راہیںنکالی جائیں۔ علاقائی سکیورٹی کی صورتِ حال،نائن الیون کےبعد کی دنیا اورخطہ کےممالک کی معاشی پالیسیوںکےحوالےسےسیر حاصل بحث ہوئی ۔یہ محسوس کیا گیا کہ وسطی ایشیا کی ریاستیںمعاشی اورسیاسی پہلوؤںسےایک مربوط اجتماعی حکمتِ عملی اختیار نہ کرنےکےباعث ایک دوسرےکےمعاشی اہداف کو نقصان پہنچانےکا سبب بن رہی ہیںاورعالمی مالیاتی سرگرمیوںکا مرکز بننےکی اپنی صلاحیت کو ضائع کر رہی ہیں۔
آزادی کےابتدائی برسوںمیںاختیار کی گئی قازخستان کی بتدریج ترقی کی پالیسیوںکو سیمینار کےشرکاء نےسراہا۔بتایا گیا کہ ترقی کا یہ سفر چند مراحل پر مشتمل ہے۔جن میںقومی اداروںکی ترقی ،بین الاقوامی تعلقات کافروغ اورمضبوط بنیادوںپر معاشرےکی تعمیر شامل ہیں۔تبدیلیوںکی اس حکمتِ عملی کےنتیجےمیںعام آدمی کی تقریباً پوری زندگی میںدور رس تبدیلیاںرُو نما ہوئیں۔معاشرہ کےہر فرد نےان اصلاحات کا بہترین مثبت نتیجہ خود محسوس کیا۔اس کےبغیر معاشرہ کی ماڈرنائزیشن ممکن نہ تھی۔
پاکستان ان ریاستوںسےبہت سےفوائد حاصل کرسکتا ہےاورانہیںبہت کچھ پیش بھی کرسکتا ہے۔وہ سمندر سےدُور ان ریاستوںکےلیےمعاشی لین دین کےلیےاپنا سمندری راستہ پیش کرسکتا ہے۔افغانستان کی صورتِ حال جب تک بہتری کی طرف نہیںآتی پاکستان کو ان ممالک سےتعاون کی ایسی راہیںبھی نکالنی ہوںگی جو باہمی طورپر دونوںکےلیےمفید ہوں۔دوسری جانب یہ پہلو بھی پیش نظر رہےکہ ان ممالک میںتقریباً 80بلین ڈالر کی مارکیٹ کی صلاحیت موجود ہےاگر پاکستان اس میںسےصرف 5فی صد بھی حاصل کر لےتو 4بلین ڈالرسالانہ کما سکتا ہے۔پاکستان کو یہ سمجھنےکی ضرورت ہےکہ تاریخ کا یہ مرحلہ وہ ہےجب دنیا میںطاقتوںکی نئی صف بندی ہورہی ہے۔اس ادراک کےنتیجےمیںپاکستان مستقبل کی صورت گری میںاپنا بہتر مقام حاصل کرسکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےزیرِ اہتمام اس کانفرنس سےجن افراد نےمقالےپیش کیےاُن میںانسٹی ٹیوٹ کےڈاکٹر سفیر اختر، پشاوریونیورسٹی کےڈاکٹر عدنان سرور، سابق سفیر جناب رستم شاہ مہمند، ایریا اسٹڈی سنٹر پشاور کےڈاکٹر شبیر خان اورقازخستان کی نیشنل یوریشین یونیورسٹی کی محترمہ ڈاکٹر اکبوتانیاز و فنہ شامل ہیں۔کانفرنس کےدو اجلاسوں کےلیےصدارت کےفرائض سابق سیکرٹری جنرل اُمور خارجہ جناب ا کرم ذکی اورسابق چیف سیکرٹری صوبہ سرحد جناب عبداللہ نےانجام دیئے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےچیئر مین پروفیسر خورشید احمد نےبھی اظہار خیال کیا۔
انسٹی ٹیوٹ کےڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےشرکاء کو بتایا کہ آئی پی ایس وسطی ایشیا کےخطےکےبارےمیںسلسلہ وار کانفرنس کےانعقاد کا پروگرام رکھتا ہےجس میں ہر ایک کانفرنس میںخطےکےایک ملک پر فوکس کیا جائےگا۔
جواب دیں