توانائی کے شعبے میں اصلاحات: موجودہ صورتِ حال، مستقبل کا منظر نامہ اورپائیداری کا راستہ
آئی پی ایس کے توانائی پروگرام کے تحت ایک گول میز مذاکرہ ۲۳ مئی ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا۔ اس کا موضوع تھا’’ توانائی کے شعبے میں اصلاحات: موجودہ صوتِ حال، مستقبل کا منظر نامہ اورپائیداری کا راستہ‘‘۔ مذاکرے کا مقصد پاکستان میں توانائی کے شعبے میں موجود بحران کی شدت کم کرنے کے لیے سفارشات اوراصلاحات تجویز کرنا تھا۔
بجلی کی منتقلی اورتقسیم کے ذمہ دار قومی ادارے NTDCکے سابق جنرل مینجراورقومی سطح پر بجلی کے نظام میں باقاعدگی قائم کرنے کے با اختیار ادارے NEPRA کے سینئر مشیر صلاح الدین رفاعی مہمان مقرر تھے جبکہ صدارت کے فرائض نیپرا کے سابق ممبر عبدالرحیم خان نے ادا کیے۔ آئی پی ایس کے توانائی پروگرام کی رہنما امینہ سہیل نے کوآرڈی نیٹر کے فرائض اداکیے۔ اجلاس میں ریٹائرڈ اورحاضر سروس سرکاری افسروں ، محققین، تجزیہ کاروں اورسول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
صلاح الدین رفاعی نے ملک کے توانائی کے شعبے کا عمومی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کے قیام سے اب تک کے حالات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے وقت صرف ۵۰میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی تھی اوراس وقت صنعت ، زراعت اور کاروباری مقاصد کے لیے بجلی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔ اب ۱۱۰۰۰ سے ۱۲۰۰۰ میگاواٹ تک بجلی پیدا ہورہی ہے لیکن پھر بھی ۵۰۰۰ میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں کی طرف سے توانائی کے شعبے میں کی گئی بد انتظامی موجودہ بحران کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس بحران نے جہاں ایک طرف بدعنوانی کو جنم دیا وہاں یہ ناکام طرز حکومت کا باعث بنا اوراس شعبے کی ترقی کا عمل رک کر رہ گیا ۔ یو ایس ایڈ کی طرف سے واپڈا کے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس (Genco)کی استعداد بڑھانے کے پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ میں ضروری تھا کہ ہر Gencoکے لیے ڈالر کرنسی میں اکاؤنٹ کھولا جائے گا جس کو اصولی طور پر وفاقی حکومت نے منظور کرلیا تھا۔ دوسال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود مرکزی بینک اور وزارت خزانہ نے یہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کھولنے کی رسمی اجازت تک نہیں دی ہے جس کے نتیجے میں بے حد ضروری مقصد کے لیے غیر ملکی امداد کا خاطر خواہ حصول ممکن نہیں ہوسکا۔
مقامی طور پر کوئلے اورپانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں پیش رفت کرنے کے بجائے فرنس آئل پر انحصار بڑھاتے چلے جانے کی پالیسی نے قرضے کی صورتِ حال کو بد سے بد تر کردیاہے۔ یہ معاملہ اُس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک پیپکو 375بلین روپے کی رقم حاصل نہیں کرلیتا۔
PPRAکے پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد جاوید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جو اعداد و شمار جمع کیے ہیں ان کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران کی شدت کم کرنے کے لیے تقریباً 30بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر امان اللہ خان نے تجویز دی کہ ایسی قانونی اصلاحات کی جانی چاہییں جن کی مدد سے توانائی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی کے یونٹوں کو آسان قسطوں پر فراہم کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے تاکہ گھریلو استعمال کے لیے بجلی کا بوجھ ہلکا کیا جاسکے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے کہا کہ حکومتی نظام بالخصوص توانائی کے شعبے پر اعتماد کی کمی کو ختم کر لیا جائے تو پورے نظام کی تزئینِ نو کرنا بہت بڑا کام نہیں رہتا۔ توانائی کا شعبہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پر کشش بنایا جاسکتا ہے بشرطے کہ اس نظام کی ساخت بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کی جائیں اور پھر اسے سیاسی اثرات سے محفوظ رکھ کر آزادانہ کام کرنے دیا جائے۔
سابقہ ممبر نیپرا عبدالرحیم خان کا کہنا تھا کہ نظام کی ساخت کو بہتر بنانے سے زیادہ اہم پہلو طرزِ حکومت کی بہتری ہے کیونکہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے حالات کو موافق اسی صورت کیا جاسکتاہے۔ سرمایہ کاروں کے لیے اہم نکتہ منصوبوں پر لگائی گئی رقم کو محفوظ بنانا اور منافع حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان کی اس پریشانی کا حل صرف طرزِ حکومت کو درست رکھنے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسی کے تحت فرنس آئل پر چلنے والے منصوبوں کی اجازت دینا ہی اس پالیسی کا بہت بڑا نقص ہے کیونکہ ایسے منصوبوں کو آپریشنل حالات میں لانے کے لیے کم از کم ڈیڑھ سال کی مدت درکار ہوتی ہے۔ رینٹل پلانٹس کی پالیسی میں تیز رفتا ر نتائج صرف اسی صورت میں حاصل ہوتے ہیں جب انہیں گیس پر چلایا جائے۔انہوں نے بحث کو سمیٹتے ہوئے بتایا کہ توانائی کے شعبہ میں صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی مداخلت کو کم سے کم سطح پر لایا جائے اورنیپرا کو زیادہ سے زیادہ آزاد اورخود مختار ادارہ بنایا جائے۔
انہوں نے آئی پی ایس کی تعریف کی کہ اس نے اتنے اہم موضوع پرپروگرام ترتیب دیا ہے اوراس تو قع کا اظہار کیا کہ یہاں پیش کیے گئے خیالات منصوبہ ساز افراد تک پہنچیں گے اورتوانائی کے شعبے میں بننے والی پالیسیوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
جواب دیں