مباحث جنوری ۲۰۱۰ ء
دہشتگردی اور دینی مدارس
حالیہ دہشگردی کے حوالے سے بعض دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کو بھی مو ر د الزام ٹھہرایا جا رہاہے ۔ اس تناظر میں طالبان سے ہمدردی اور رابطوں کی بنیاد پر دیوبندی مکتب فکر کچھ زیادہ ہی معتوب ہو رہا ہے ، تاہم اہل دیوبند کی طرف سے اس الزام کی با رہا تردید بھی کی جا چکی ہے لیکن اہل دیوبند کا طالبان کے بارے میں نرم رویہ اور طالبان کی طرف سےبیشتر کارروائیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے کے باعث انکی تردید بے اثرثابت ہو رہی ہے ۔بعض دیوبندی جرائد نے دہشتگردی کو مدارس سے منسوب کرنے کی تردید کی ہے۔جبکہ بریلوی اور شیعہ جریدے کی نظر میں دیوبندکے وابستگان اس عمل میں شریک ہیں۔
”البلاغ” لکھتا ہے” اسلام دشمن طا قتوں نے پاکستانی معاشرے کو اسلام اور دینی تعلیمات سے برگشتہ کرنے کےلئے بھی جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے ، دینی مدا ر س اور مساجد سے وابسطہ لوگوں پر دہشتگردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کو شش ہو رہی ہے ”[36] ۔ اسی تناظر میں ”ختم نبوت” نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کے خیا ل میں مدارس پر دہشتگردی کا الزام عائد کر کے ان کا تعلق القاعدہ سے جو ڑنے کی حکومتی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اور مدارس پر دہشتگردی کا الزام لگانے والوں کو علم ہو نا چاہیے کہ مدارس کے نصاب میں اسلحہ سکھانے اور چلانے کا کوئی مضمون شامل نہیں ہے[37]۔ ”الشریعہ ” کے خیال میں انتہاپسند جماعتوں کی تنظیم سازی اور ٹرینگ میں دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں ہے ۔اور یہ بات قابل غور ہے کہ عالمی سطح پر دہشتگردی کے سب سے بڑےنیٹ ورک القاعدہ کے بیشتر ارکان یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یا فتہ ہیں ۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ‘ موجودہ شدت پسندتنظیموں کی عمر ربع صدی کے لگ بھگ ہے،اور اگر مدارس کی ڈیڑھ سوسالہ پرامن کردار کو نظر انداز کر کے انہیں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے موجودہ گروپوں کی تشکیل کا ذمہ دار قراردیا جائےتو یہ درست نہ ہو گا۔[38] ”ضرب مومن”اپنے تبصرے میں لکھتا ہے کہ ‘دہستگردی کی ان کاروائیوںکو مذہبی رنگ دینا ، خصوصا ایک خاص مسلک کو ہدف تنقید بنانے کو کسی طور مثبت ردعمل اور شائستہ طرز فکر نہیں کہا جا سکتا ‘ [39]۔
تاہم دیوبند سے متعلق سخت موقف کے حامل بریلوی جریدے ‘‘معارف رضا ” نے واضح طو پر دہشتگردی کی حالیہ اور سابقہ وارداتوں کو طالبان کی کارروائیاں قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تمام دہشتگرد تنظیموں کا تعلق وہابیو ں[40] کے مدارس سے ہے ۔جریدے کے خیا ل میں حکومت کو ان تمام افراد اور اداروں پر نظر رکھنی ہو گی جو ان دہشتگردوں کی پشتپناہی کر رہے ہیں اور انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق انہیں افراد کا ر فراہم کر رہے ہیں ۔[41]اسی حوالے سے ”افکار العارف ” جی ایچ کیو پر حملے کے مبینہ ملزم ڈاکٹر عثمان سے کالعدم سپاہ صحابہ کے صدر احمد لدھیانوی کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے” ان لو گو ں کی ملک دشمنوں سے روابط آشکار ہو چکے ہیں ” —”بعض لوگ اس شدت پسندی کووزیرستان میں جاری حالیہ آپریشن کا رد عمل قرار دے رہے ہیں جو حقائق کو غلط رنگ دینے کے مترادف ہے”۔[42]
اسی ضمن میں ”الفاروق ” ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار نے یہودیوں کے مذہبی مدارس میں عسکریت پسندی کی تعلیم کے بارے میں بی بی سی کی خبر کاحوالہ دیتےہوئے لکھا ہے ۔” اگر مسلمانوں کے دینی مدارس ، جہاں فوجی تربیت اور عسکریت کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی ، وہ ہضم نہیں ہو سکتے تو جن یہودی مدارس میں باقاعدہ عسکریت کی تعلیم وتربیت ہو تی ہے وہ کیونکر قابل برداشت ہیں؟ ۔[43]
جواب دیں