مباحث جنوری ۲۰۱۰ ء
قومی مفاہمتی آرڈیننس(NRO) پر عدالتی فیصلہ
سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں منظور کیے گئے قومی مفاہمتی آرڈیننس NROکو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے جسکے نتیجے میں اس آرڈیننس کے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات دوبارہ بحال کر دئیے گئے۔این آر او سے مستفید ہونے والے 8041 افراد میں صدر مملکت آصف علی زرداری سمیت متعدد وفاقی وزرا ءبھی شامل ہیں ۔دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث جرائدنے حکومت کی طرف سے این آر او کو اسمبلی سے منظوری کی کوشش اور اسکے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں اظہا ر خیا ل کیا ہے ۔ جرائد کے تبصرے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ این آر او کو کالعدم قرار دینے اور اس سے استفادہ کرنے والوں کے احتساب کے متمنی ہیں ۔
”اہلحدیث” اداریے میں لکھتا ہے ، ”پیپلز پارٹی کی یہ خواہش تھی کہ لٹیروں کو تحفظ دینے والے اس کالے قانون کو باقاعدہ قانون بنا لیا جائے لیکن عوام کے تیور دیکھ کر انہیں یہ ہمت نہ ہو سکی ۔۔۔ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے تمام لوگوں کوعدالت میں لایا جائے تاکہ اصل مجرموں اور بے گناہوں کو الگ الگ کیا جا سکے” ۔[8]
”ضرب مومن ” نے پارلیمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ این آر او کے معاملے میں پڑنے کی بجائے اصل مسائل پر توجہ دے اور اس مسئلے کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دے ۔ساتھ ہی جریدے نے امید ظاہر کی ہے کہ ان لوگوں کے محاسبے سے پاکستان کا نام بدعنوان ممالک کی فہرست سے بھی نکل آئے گا ۔ جریدہ اپنی ۲۷ نومبر تا ۰۳ دسمبر کی اشاعت میں لکھتا ہے ، ”اگر این آر او کے ذریعے معاف کروائی گئی رقم پاکستان کو واپس مل جائے تو موجودہ مالی بحرانوں سے باآسانی نمٹا جا سکتا ہے ،۔۔۔ضرورت اس بات کی ہے کہ این آراو سے فائدہ اٹھانے والوں کا محاسبہ کر کے ملک کی کایا پلٹنے کی کوشش کی جائے ”۔[9]
”الااعتصام ” کے خیال میں اگر خدانخواستہ یہ قانون بن جاتا تو قومی اسمبلی کے چہرے پر ایسی کالک لگ جاتی جسے دھونے کے لئے مدتیں درکار ہوتیں اور یہ پارلیمنٹ ملزموں مجرموں ، ڈاکوو ں اور قومی دولت کے لٹیروں کی ہمیشہ کے لئے پشتپناہ بن جاتی ، جریدہ اپنی ۲۷ نومبر تا ۰۳ دسمبر کی اشاعت میں اس عزم کا اظہار کر رہا ہے کہ عدالت این آر او کا گند صاف کرنے کے ساتھ ساتھ قرضے معاف کروانے والوں کا کچا چٹھا بھی کھو لے گی ۔[10]
صدر پاکستان کے اس قانون کی گرفت سے بالاتر ہونے کی بحث کا تذکرہ کرتے ہوئے ”محدث”اسلامی تاریخ سے حکمرانوں کےاحتساب کے چندحوالے ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے ” ہمارے آئین میں سربراہ مملکت کو حاصل یہ تحفظ اور استثناء عدل و انصاف کے سراسر منافی ہے اور قوانین اور احکام الہیہ کا مذاق ہے ۔۔۔۔۔ اسے تبدیل کیا جانا چاہیے ۔[11]
” دعو ت تنظیم الاسلام ” نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے کہ این آر او کے ذریعے قرض معاف کروانے والوں نےقائد اعظم کی قربانی کا باب پڑھنے کی کوفت کیوں گوارہ نہ کی ؟ ۔[12]” الحامد ” نے پرویز مشرف کے دور میں سرکاری خزانے سے اپنی تجوریاں بھرنے والوں کو بھی منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے ،[13]
جواب دیں