پاکستان میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت: ایک جائزہ
پاکستان میں پن بجلی کی کم پیداوار محض تکنیکی اور عمل درآمد کے مسائل سے متعلق نہیں ہے بلکہ غیر فعال حکومتی پالیسیوں، غیر تکنیکی افراد کی مداخلت اور مالی مشکلات کی وجہ سے عوام الناس کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہے۔
یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقدہ سیمینار میں سامنے آئی جس میں توانائی کے ماہرین امتیاز مجید اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف انجنیئرنگ پاکستان حسین احمد صدیقی شامل تھے۔ یہ پروگرام مورخہ ۶ مارچ ۲۰۱۳ء کو منعقد کیا گیا جس میں توانائی ماہرین کی منتخب تعداد نے شرکت کی۔
امتیاز مجید کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر جاری کیے گئے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق ملکی سطح پر پن بجلی کی ساٹھ ہزار میگاواٹ کی صلاحیت موجود ہے۔ جس میں اب تک کی پیداواری صلاحیت، تمام جاری منصوبے اور ایسی تمام سائٹس شامل ہیں جن کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ اس تمام میں سے انتیس ہزار میگاواٹ کے منصوبے زیر تعمیر ہیں لیکن اصل ترقیاتی کام نیلم جہلم، بھاشا اور سد پارا ڈیم پر جاری ہے جس کی کل صلاحیت چھ ہزار سات سو میگا واٹ ہے۔
اٹھارہ ہزار چھ سو میگاواٹ کی پیداوار کے لیے دیگر جگہوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے لیکن ابھی تک کوئی فیز یبیلٹی رپورٹ تیار نہیں ہو سکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قدرت نے پاکستان کو وافر پن بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے نوازا ہے جن سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے مناسب پالیسیوں، ضروری مالی وسائل اور مجاز تکنیکی عملے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پن بجلی کے تمام منصوبوں کے لیے بھر پور مالی وسائل، بے عیب ڈیزائن اور مکمل مہارت یافتہ عملے کا ہونا ضروری ہے اور اس سب سے بڑھ کر موجودہ حکومت کی سیاسی جرأت اور خواہش کا ہونا ہے۔
زمین کا حصول کسی بھی منصوبے کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ مشہور بھاشا ڈیم کے لیے ابھی تک یہ مرحلہ مکمل طور پر طے نہیں کیا جا سکا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک وقت میں صرف ایک منصوبے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جبکہ دیگر منصوبوں پر محض ابتدائی کام جاری ہے۔ جبکہ مقامی اور غیر ملکی مہارت اور وسائل سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ایک سے زیادہ منصوبے ایک ہی وقت میں بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
انجینئر محمد احمد صدیقی نے کہا کہ پن بجلی کی پیداوار بڑھانے کی راہ میں بہت رکاوٹیں ہیں جس میں سب سے اہم مسئلہ غیر ملکی ٹیکنالوجی اور آلات ومشینری پر انحصار ہے۔ مقامی تکنیکی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک جب پن بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے مقامی انڈسٹری قائم کر رہا تھا اور مزید بہتری کے لیے مصروف عمل تھا تو تمام تر توجہ تھرمل پاور کی جانب مبذول کر دی گئی جس کی وجہ سے مقامی انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا۔ ہیوی میکینیکل کمپلیکس نے چھوٹے پیمانے پر ہائیڈل پاور کی پیداوار کے لیے تقریباً چالیس چھوٹے ٹربو جنریٹر بنائے جو کہ شمالی علاقہ جات میں مختلف جگہوں پر لگائے گئے جو ابھی بھی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مقامی انڈسٹری پن بجلی کی پیداواری مشینری کے تمام پرزہ جات بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور بنا رہی ہے۔
حال ہی میں ’نال تر‘ گلگت بلتستان میں ایک مقامی سطح پر تیار کردہ جنریٹر لگایا گیا ہے انہوں نے صلاحیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ موجودہ صورت حال کی طرح بڑے منافع خوروں کی حمایت کے بجائے مقامی انڈسٹری کو مربوط اور مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
نوعیت : روداد سیمینار
تاریخ : ۶ مارچ ۲۰۱۳ء
جواب دیں