تعارف: عالمگیریت کا چیلنج اور مسلمان – 2

تعارف: عالمگیریت کا چیلنج اور مسلمان – 2

جدید عالمگیریت کچھ لوگوں کی نظر میں نو آبادیاتی نظام کی توسیع اورترقی یافتہ اقوام کی جانب سےترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ اقوام کےاستحصال کا نظام ہےاورکچھ دوسرےافراد کی نظر میں یہ کم ترقی یافتہ اقوام کےلیےآگےبڑھنےکےامکانات کا دروازہ ہے۔
’’عالمی گاؤں‘‘ میں نئےسماجی و معاشی تعلقات کےساتھ ساتھ تہذیبی و مذہبی اورنسلی و لسانی تکثیر یت کےمسائل و اثرات بھی اہلِ فکر کی توجہات کا مرکز ہیں۔
آج کی مسلم دنیا بالعموم ترقی پذیر ملکوںپر مشتمل ہے۔ تاہم ان متعدد چیلنجوں کا،جو دوسرےترقی پذیر ملکوں کو بھی درپیش ہیں،سامنا کرنےاوریہ طےکرنےکےساتھ ساتھ کہ ان سےکیسےنمٹا جائے،مسلم دنیا اسلام کی طرف بھی رجوع کرتی ہےجو اس کےلیےکلیدی قوتِ محرکہ ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں مسلمان اس بارےمیں اہم اورفوری نوعیت کےسوالات پوچھ رہےہیں کہ عالمگیریت کےمعاملہ میں اپنےعقیدےکی رُو سےانہیں کیا روّیہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان سوالوں کا جواب دینےکےلیےدنیائےاسلام اورمغرب ،دونوںجگہ کوششیں کی گئی ہیں۔
اِن میں سےبعض کاوشوں کو آئی پی ایس کی جانب سےشائع ہونےوالی کتاب Essays on Muslims and the Challenges of Globalizationمیں پیش کیا گیا ہے۔ مغرب اوراسلام کےایک گزشتہ شمارہ (شمارہ نمبر۳۴،خصوصی شمارہ ۲۰۱۰ء) میں اس کتاب کا ایک حصہ پیش کیا گیا تھا۔  موجودہ شمارےمیں حسبِ وعدہ ان منتخب مقالات کا دوسرا حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ کتاب میں شامل تحریریں عالمِ اسلام اوراس کےساتھ ساتھ مغرب کےممتاز دانشوروں کےتحریر کردہ اُن مقالات کا مجموعہ ہے، جو آئی پی ایس کےجرنل ’پالیسی پرسپیکٹیوز‘ میں وقتاًفوقتاً شائع ہوئے۔ یہ مجموعہ عالمگیریت کی موجودہ شکل اورمضمرات کےبارےمیں بہت سےپریشان کن سوالات کا حقائق پر مبنی تناظر پیش  کرنےکےساتھ ساتھ اس حوالےسےاسلامی رویے، غلبہ اسلام کی جدوجہد سےاس کےتعلق اور مسلمان پالیسی سازوں کےلیےاس کی فروعات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ ان تمام مقالات کو اُردو کےقالب میں ڈھالنےکا اہم فریضہ جناب ثروت جمال اصمعی نےانجام دیا ہے۔
’’عالمگیریت کا چیلنج اورمسلمان‘‘(حصہ اوّل) میں چھےمقالات پیش کیےگئےتھے۔ اب اس موضوع کےحصہ دوم کےطور پر پیش کردہ ’’مغرب اوراسلام‘‘ کےزیرِ نظر شمارےمیں پانچ مقالات شامل کیےگئےہیں۔
پہلا مضمون ڈاکٹر محمد عمر چھاپرانے’’بین الاقوامی مالیاتی استحکام: اسلامی مالیات کا کردار‘‘ کےعنوان سےتحریر کیا ہے۔ اس میں انہوں نےعالمی مالیا ت نظام پر تنقیدی نظر ڈالی ہےاورخصوصاً پچھلےچار پانچ عشروں کےدوران جنم لینےوالےعالمی مالیاتی بحران کےاسباب و عوامل کا جائزہ لیا ہے۔ سود کی بنیاد پر چلنےوالےبالادست مالیاتی نظام کی داخلی کمزوریوں کو بےنقاب کرتےہوئے، ڈاکٹر چھاپرا نےایک نئےمعاشی نظام کےمتعارف کرائےجانےکی ضرورت کو پرزور دلائل سےواضح کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ اسلامی بینکنگ کےاصولوں کی تشریح کرتےہیں جن کےتحت سود کو ختم کر کےنفع اور نقصان میں شراکت کی بنیاد پر بینکاری کی جاتی ہے۔ وہ وضاحت کرتےہیں کہ اسلامی طریقوں سےکیا جانےوالا مالیاتی بندوبست کس طرح حقیقی معیشت کےساتھ اقتصادی سرگرمیوں میں توسیع اور نقدی کےغیر ضروری پھیلاؤ کو ، جس سےفضول خرچی اورعدم استحکام کی راہ ہموار ہوتی ہے،روکنےکا ذریعہ بنےگا۔
اگلےتین مضامین میں، ایسی دنیا میں جہاں عالمگیریت زندگی کےہر پہلو کو متاثر کر رہی ہے، امن اوراستحکام کےمعاملات کا مذہبی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ ایان مارکھیم دو عیسائی نقطہ ہائےنظر کےبارے میں میں بتاتےہیں جن میں سےایک کی رو سےہر قسم کی جنگ ناجائز ہےجبکہ دوسرےنقطہ نظر کےمطابق منصفانہ جنگ کی اجازت ہے۔ وہ یہ وضاحت بھی کرتےہیں مسیحی عقیدےکی رو سےمنصفانہ جنگ کی اجازت کن حالات میں دی گئی ہےاوراس کی شرائط کیا ہیں۔
ڈاکٹر انیس احمد نےاس پہلو پر بحث کی ہےکہ عالمی امن اورانصاف کس طرح اسلام اوراس کےساتھ ساتھ سیکولر تحریکوں کا مشترکہ مقصد ہے۔ وہ اسلام کےتصور جہاد کی تشریح کرتےاوراس فرق کو واضح کرتےہیں جو اسےتشدد سےالگ کرتا ہے۔ انہوں نےاسلامی نقطہ نگاہ سےحقیقی عدل اورامن کےقیام کےلیےسات بنیادی اصولوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ڈاکٹر محمود غازی نےبین الاقوامی تعلقات کےحوالےسےاسلامی قوانین اورتعلیمات کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نےبتایا ہےکہ بین الاقوامی تعلقات کےلیےاسلامی نظام قانون کےبنیادی اصول قرآن اوراحادیث نبویؐ کی رو سےکیا ہیں، دور اول کےمسلمان فقہاء نےاس بنیادی قانون کی کس طرح وضاحت کی ہے، اور اسلامی معاشروں میں ان پر کس طرح عمل کیا گیا ہے۔  مصنف وضاحت کرتےہیں کہ مسلمانوں نےبین الاقوامی قانون کےتصورات کو اس طرح ترقی دی اوران پر عمل کیا کہ مغرب کا بین الاقوامی قانون آج بھی اس تک پہنچنےکی کوشش ہی کر رہا ہے۔ وہ اسلام اور جدید دنیا کےبین الاقوامی قانون میں نمایاں تعلق کی نشان دہی کرتےہیں۔
آخری حصہ ڈاکٹر عمر چھاپرا کےایک اورمقالےپر مشتمل ہےجس میں وضاحت کی گئی ہےکہ اسلامی نظام زندگی میں سماجی و اقتصادی عدل کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ مصنف نےاس خلیج کی نشان دہی کی ہےجو اسلام کےمطلوبہ معیار اورمسلمان ملکوں میں جاری معاشی ترقی کےدرمیان پایا جاتا ہے۔ انہوں نےممتاز مفکروں، خصوصاً ابن خلدون کی آراء کی روشنی میں جائزہ لیا ہےکہ اسلامی تہذیب کےزوال و انحطاط کےاسباب کیاہیں، اوران شعبوں کی نشان دہی کی ہے، جن میں مسلم دنیا میں سماجی اقتصادی عدل کی بحالی کےلیےلازماً اصلاحات کی جانی چاہیں اورپھر عدل و انصاف پر مبنی اس نظا م کو عالمگیریت کےعمل سےگزرتی پوری دنیا کےسامنےپیش کرنا چاہیے۔
امید ہےقارئین عالمگیریت کا چیلنج اورمسلمان (حصہ دوم)میں بھی اپنی دلچسپی اورغورو فکر کا وافر سامان پائیںگے۔ ان تمام مباحث سےاُبھرنےوالا بنیادی پیغام یہ ہےکہ اگرچہ عالمگیریت اپنےاندر انسانیت کی فلاح و ترقی اور خوش حالی کا بڑا سامان رکھتی ہے، اس کےباوجود انسانوں کی بہت بڑی اکثریت فی الوقت ان فوائد سےمحروم ہےاور اس کی وجہ یہ ہےکہ بین الاقوامی نظام غیر منصفانہ ہے۔ ایسی دنیا میں عالمگیریت کا نتیجہ اس کےسوا کچھ نہیں نکل سکتاکہ کمزوروں کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑےاور طاقت وروں کو مزید فائدےحاصل ہوتےرہیں۔ یہ مسلسل استحصال نہ صرف انسانیت کےمصائب اور مشکلات کو بڑھاتےچلےجانےکا سبب ہےاور اس کےنتیجےمیں بین الاقوامی تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہےبلکہ در حقیقت یہ تصادم شروع ہو چکا ہے۔ سماجی اقتصادی عدل، عالمی امن کےلیےلازمی ضرورت ہے۔ لہٰذا عالمگیریت کی موجودہ ہمہ گیر لہرکو لازماً ان بنیادی اخلاقی اصولوں کےتابع کیا جانا چاہیےجن کی تعلیم مختلف مذاہب خصوصاً اسلام میںدی گئی ہے۔
اس خاص شمارہ کی تیاری کےلیےجن ساتھیوں کا شکریہ خاص طور پر واجب ہےان میں جناب ثروت جمال اصمعی، متقین الرحمن، فرقان کاکڑ شامل ہیں جن کا تعاون مختلف مراحل میں حاصل رہا۔

 

تحریر: مدیران(خالدرحمٰن، عرفان شہزاد)

نوعیت: مجّلہ کا تعارف

ماخذ: مغرب اور اسلام ، شمارہ ، ۳۶، ۲۰۱۱ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے