تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

 

گم شدہ اسلوب
    ہر تہذیب خواہ وہ ہندی یا رومی ہو، چینی ویونانی ہو یا اسلامی․․․․ اس نے اس دنیا اور اس کے بعد کی زندگی، اس خاکے میں انسان کی حیثیت، ریاستوں اور عوام کے درمیان معاملت، وسائل کی ترقی، مختلف شعبوں کی نشوونما میں مدد، اور ان معاملات کے لیے قوانین اور رہنمائی کے بارے میں غور وفکر کیا ہے۔جدید فلسفیانہ فریم ورک کے سیاق میں اس حوالے سے یونانی فکر کا حصہ بہت زیادہ رہاہے، خصوصاًقانون اور نظم و نسق، ترقی علم ، طرز ہائے فکر اور سائنس کے میدانوں میں۔حتیٰ کہ طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کی اصطلاحات ارسطو کی کتاب کے تسلسل سے آئی ہیں،جہاں وہ اس بات پر بحث کرتا ہے کہ طبیعیات کیا ہے اور طبیعیات سے بالاتر، ماورائے طبیعیات کیا ہے۔ تاہم یونانی فکرکا محور معقولیت، دلیل، دانش اور منطق رہے، تجربے کے اصول کو تسلیم کرنے اور عملی تجربے کو اختیار کرنے کا راستہ اس نے نہیں اپنایا۔مثال کے طور پر ارسطو اپنی اس رائے کے حق میں دلائل دیتا ہے کہ ایک بھاری چیز ہلکی چیز سے زیادہ تیزی سے زمین پر گرتی ہے۔یہ بات منطق کی رو سے تو درست معلوم ہوتی ہے مگر حقیقتاً غلط ہے جس کا پتہ تجربے سے چلتا ہے۔
قرون وسطیٰ اور عہد متوسط کے دوران یورپ کا رابطہ مشرق کی عظیم علمی و ثقافتی روایات سے ہوا جس نے یورپ کے دانشورانہ ذہن کو متاثر کیا۔ جدید مغربی نظریہ سازی (تھیورائزیشن )کے ارتقاء میں حقیقی معنوں میں انقلابی پیش رفت،۱۴۵۳ء میں بازنطینی سلطنت کی ترکی کے ہاتھوں فتح کے پس منظر میں یونانی فکر کے پھیلاؤ کی شکل میں ہوئی۔اس فتح کے نتیجے میں یونانی مہاجر اور تارکین وطن بڑے پیمانے پر یورپ آئے اور اپنے ساتھ یونانی علوم کا خزانہ لائے۔ انہوں نے تین بڑی دانشورانہ اور ثقافتی تحریکوں نشاۃ ثانیہ، اصلاحات اور روشن خیالی کو ابھارا۔ نشاۃ ثانیہ مغرب کے طرز فکر میں خدا اور’’ دوسری دنیا‘‘ سے ’’اِس دنیا‘‘ اور انسان کی طرف منتقلی کی صورت میں ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ تحریک اصلاح ،مذہب یا چرچ کے چیلنج کا جواب تھی ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اس نے مذہب کی قلمرو کی اصلاح کر کے اسے بدلتے ہوئے حقائق کے ساتھ مربوط بنانے پر زور دیا۔ جبکہ روشن خیالی کی تحریک وہ اصل عامل ہے جس نے مغرب کے اسلوب ِ تحقیق میں واضح اصطلاحات میں وجودیاتی اور علمی موقفوں کی صورت گری کی۔
ان تین تحریکوں کے نتیجے میں یہ پرزور داعیہ ابھرا کہ مستقبل کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مذہبی جنگوں، عدم برداشت، غیر حقیقت پسندانہ رویوں، نیزانسان ، اِس دنیا اور اِس کے مسائل کو نظر انداز کرنے کے رجحانات سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیا جائے۔ اس کے لیے ماضی اور مذہب سے رشتہ توڑنا لازمی قرار پایا۔ تیس سال (۱۶۱۸ء- ۱۶۴۸ء) تک جاری رہنے والی مذہبی جنگوں نے یورپ میں اس سوچ کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس راستے کا ایک نمایاں سنگ میل۱۶۴۸ء کے معاہدے ہیں جوعموماً پیس آف ویسٹ فیلیا (Peace of Westphalia)کے نام سے جانے جاتے ہیں،نیز اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کے بیشتر حصے کی سوچ ، فکر کے تقریباً تمام شعبوں میں نئی روش کی نمائندگی کرتی ہے، جس کے تحت دعویٰ کیا گیا کہ خدا، مذہب، اور خدائی ہدایت یا تو غیر متعلق ہوگئے ہیں،یا غیر ضروری ہیں کیونکہ عقل، تجربے، مشاہدے اور تاریخ وغیرہ نے انسان کو اتنا خود کفیل بنادیا ہے کہ وہ اپنے طور پر حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اور دنیا کو ازسرنو تخلیق کرسکتا ہے۔بلاشبہ اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے میدانوں مثلا تجارتی انقلاب، صنعتی انقلاب، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی،استعماری مہم جوئیوں،اور انہیں معیشت اور سیاست کی ترقی کے لیے استعمال کیے جانے کی صورت میں بھی پیش رفت جاری تھی اور یہ عوامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہے تھے۔ ارتقاء کا یہ عمل ایک نئے ماڈل کی صورت گری پر منتج ہوا جوزندگی کے بارے میں سیکولرنقطۂ نظر پر مبنی تھا۔
سیکولرازم ایک طرح سے بڑی رحمت تھا کیونکہ اس نے ان معاملات کو نمایاں کیا جو یورپ کے مذہبی تجربے کے سیاق میں نظر انداز کردیے گئے تھے یابدنام ہوچکے تھے۔لہٰذا انسانی جسم، معاشرے، عالم طبیعی، وسائل کی دریافت اور ارتقاء، دولت کی پیدائش کی جدوجہد،توانائی، افادیت، اور اگر قسمت ساتھ دے تو مسرت، تونگری اور خوش حالی کی جانب انسانی کاوشوں کی منتقلی ایک لحاظ سے ضروری تھی۔تاہم یہ تبدیلی یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے ایک اور رخ اختیار کرلیا۔ یہ مذہب سے انکار یا کم ازکم اسے غیر متعلق قرار دینا تھا یعنی یہ کہ یا تو خدا کا کوئی وجودہے ہی نہیں یا اگر کوئی خدا ہے بھی تو وہ اپنا کردار ادا کرچکا ہے،اور اب ہر چیز خود اپنی بنیاد پر چل رہی ہے یا چلے گی کیونکہ انسان اتنا عقل مند ہوگیا ہے کہ’ حقیقت ‘کو تلاش کرسکے۔ ماوراء سے تعلق یا اس کی ضرورت سے انکاروہ اہم ترین جہت ہے جس نے ایک reductionist اسلوب کی بنیاد رکھی اور جدید فلسفیانہ فکر کوسماجی علوم کے ایک شعبے (discipline)کی حیثیت سے غیرمتوازن کردیا۔ یوں سیکولر نظریے کے تحت جو تبدیلی واقع ہوئی اس میں خدا اور انسان کے درمیان خالق و مخلوق کے رشتے ،اور دنیا کے بعد آخرت کی زندگی کے عقیدے کی جگہ انسان کی رہنمائی کے لیے انسانی دانش کے کافی ہونے کے تصوراور دلیل و تجربے کو اپنانے کی بناء پر الٰہی ہدایت کے غیرضروری ہوجانے کے گمان نے لے لی۔ یہ وہ چیز ہے جس نے انسانی زندگی کا پورا نقشہ بدل کررکھ دیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے