تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات
سیکولر ماڈل کا بحران
تجربے پر مبنی تحقیق کے اس سیکولر ماڈل کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ عالم طبیعی سے تخاطب اور اس کی تفہیم، قوانین فطرت اور ان کے روبعمل آنے کے طریقوں کی دریافت کے لیے سائنس کی طاقت کا استعمال شروع ہوا۔نئی سائنسی دریافتوں کی روشنی میں، سائنس کا اطلاق ٹیکنالوجی کی صورت اختیار کرتا ہے۔چنانچہ مشاہدے اور تجربے کے طریق کار پر مبنی طبیعی علوم(نیچرل سائنسز) اس دور میں انسانی کوششوں کا اصل محور بن گئے، اس نے یقینی طور پر انسان کی طاقت اور وسائل میں اضافہ کیا،جن سے استفادہ کے سبب انسانی معاشرے نئی کامیابیوں کے لائق بنے۔ لیکن اس کے نتیجے میں سائنس کا وہ شعبہ بھی جو انسانوں، افراد، اداروں، معاشرے ،سماجی عمل اور انسانی رشتوں سے متعلق ہے، اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے دانشورانہ ماحول اور ثقافتی سیاق کے سبب جس میں یہ ساری پیش رفت ہوئی تھی، نیچرل سائنس کا ماتحت بن گیا۔ لہٰذاعمرانیات، معاشیات، سیاسیات، بشریات وغیرہ کے میدانوں میں نیچرل سائنس کے طریقوں کو ،معروضی، بالاتر، معقول اور قابل تصدیق باور کرتے ہوئے، متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔
طبیعی علوم (نیچرل سائنس) کے طریقوں کوعمرانی علوم (سوشل سائنس) پر منطبق کرنے کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ پہلے ہی واضح تھا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ انسان روبوٹ نہیں ہیں، انہیں فیصلے اور انتخاب کی اہلیت اور آزادی عطا کی گئی ہے اور مختلف انسان ایک ہی محرک کے جواب میں مختلف ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں، ایسا کرنا ایک غیرضروری عمل پر زور دینے کے مترادف تھا۔مثلاًایک بچے اور گیند کو دیکھئے۔اگر گیند ایک خاص طاقت سے پھینکی جائے تو وہ ایک مخصوص فاصلے تک جائے گی اور جب رفتار کا تحرک صفر ہوجائے گا تو رک جائے گی۔جبکہ ایک بچے کو فاصلے اور رفتارکے حساب کتاب کے لیے اتنی ہی طاقت کے ساتھ پھینکنا بالکل غیرانسانی عمل ہوگا۔بہرصورت جدید سماجی سائنس’’کیا ہے؟‘‘پر توجہ مرکوز کرتی ہے، یعنی انسان کیا کرتے ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے، جیسے امور پر زیادہ زور دیتی ہے۔ یہ اس انتہا تک نہیں جاتی کہ اس سوال کا جواب تلاش کرے کہ کیا تحقیق کے’انسانی معمول‘ (Human object)کا ردعمل بامقصد یا درست سمت میں ہوتا ہے یا نہیں۔ ظاہری حقیقت پر یہ غیر ضروری اصرار تحقیق کار کو انسانوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے لیے متحرک کرتا ہے نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ایسا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت ودیعت کردی گئی ہے۱۔لہٰذا کسی ترغیب پر انسان کی جانب سے اختیار کیے گئے اچھے یا برے رویے کی وجہ سے وہ نیک یا بد قرار پاتا ہے۔انسانی طرزعمل کو سمجھنے کے اس طریقے کا اپنایا جانا اسی صورت میں ممکن ہے جب ایک شخص کو تجربی یا ایجابی اسلوب تک محدود نہ کیا جائے۔بدقسمتی سے نیچرل سائنس کے طریقے سماجی علوم پر منطبق کرنے کی یہ محدودیت پسند( reductionist )روش بڑے غلط نتائج تک پہنچانے کا سبب بنی۔
اس ماڈل کی ایک اور خامی اس حقیقت سے ابھرتی ہے کہ سماجی علوم میں قوانین ، اصولوں اور نظریوں کی تعمیم(Generalization)، طبیعی علوم کے اصولوں اور طریقوں کے مطابق کی جارہی ہے اور مشاہدے اور تحقیق کا پورا عمل اس مبصر کے ذہن میں وقوع پذیر ہورہا ہے جو ایک مخصوص ثقافت، معاشرے اور نظام اقدار میں کام کرتا ہے۔ایک شخص معلومات اور حقائق کو جمع کرنے کی حد تک تو معروضی رویے کا حامل ہوسکتا ہے، لیکن جب وہ ایک بار اس کی نظام سازی (systemization) کے عمل کا آغازکرتا ہے تو انسانی اقدار، ثقافتی سیاق اور پورا تہذیبی ڈھانچہ اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگر اخلاقیات کے سوال سے بحث نہ کی جائے تو ان معلومات کی صورت گری لازما ً مختلف ہوگی کیونکہ اگر یکساں معلومات کی نظام سازی، ضابطہ بندی اور ترتیب مختلف نظام اقدار میں کی جائے تو نتیجہ لامحالہ مختلف ہوگا۔ مختصراًیہی وجہ ہے کہ موجودات کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر رکھنے والا سائنسدان جمع کی گئی اطلاعات کو منشائے خداوندی کے جزو کے طور پر دیکھتا ہے ، زیرمشاہدہ شے کی تخلیق کے مقصدکا پتہ لگانے اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اسے بہتر سے بہتر طور پر کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ سیکولر زاویہ نگاہ اور نظام اقدار جو کہ اخلاقی سیاق سے مبرا ہے، اس کے تحت کام کرنے والا یہ جہت اختیار نہیں کرتا۔
سوشل سائنس میں خاص طور پر ایک اور بنیادی مسئلہ اقدار کے حوالے سے نام نہاد غیرجانبداری کا ہے۔اقدار کے معاملے میں غیرجانبدار ی ناممکن ہے، خواہ اقدار معروف اور واضح ہوں یا مبہم، مخفی یا مضمر ہوں۔مغربی سماجی سائنس میں غیرجانبداری کے اس پردے کا اہتمام شاید سماجی علوم کو ان کی اخلاقی اور ثقافتی بنیادوں سے کاٹ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگرچہ طبیعی علوم میں بھی اقدار کا ایک عنصرپایا جاتا ہے،پھر بھی اقدار میں غیرجانبداری کے امکانات اس صورت میں نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں جب عملِ مشاہدہ کے عامل اور معمول ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کے ہوں۔ بہرکیف سماجی علوم میں مشاہد(Observer)اور زیر مشاہدہ (Observed)دونوں ایک ہی نوعیت کے ہونے کی وجہ سے باہم خلط ملط ہوجاتے ہیں کیونکہ مشاہد جب یہ دیکھتا ہے کہ بیرونی چیز کیا ہے تو وہ اپنے آپ کو بھی باہر سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے سے مکمل لاتعلقی ناممکن ہے۔چنانچہ تحقیق کار کے لیے زیادہ سائنٹفک اور دیانت دارانہ طریقہ اپنی اقدار کو مضمر یا مخفی رکھنے کے بجائے اپنے نظام اقدار کی موجودگی کا اعتراف کرلینا ہے۔اس وجہ سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ یورپ کا منفرد تجربہ، جو ایک مخصوص ثقافتی،دانشورانہ اور اخلاقی سیاق میں پروان چڑھا ہے، فطری، آفاقی اور ہر جگہ قابل اطلاق ہے۔ آج جدید تحقیق کے عمل اور عمومی طور پر پوری زندگی میں سماجی علوم کے شعبے جن خامیوں اور نقائص سے دوچار ہیں، وہ اسی مفروضے کا نتیجہ ہے۔
اس لیے سماجی علوم میں جدید تحقیق کا بحران، مسئلے کی صورت گری، دعوے کی تشکیل، پیمائش کے معیارات، طریقوں اور عمل، معلومات کا جمع کرنا اور تجزیہ کرنا،استنباط و استدلال، اخذ ِ نتائج،تعمیم اور نظریات وغیرہ سے متعلق نہیں ہے۔ اصل مسئلہ دانشورانہ، اخلاقی اور ثقافتی حوالوں سے محقق اور مبصر دونوں کے، بحیثیت افراد اور بحیثیت تحقیق کاروں اور دانشوروں کی پوری ٹیم کے نظام اقدار میں مضمر ہے۔کیونکہ اقدار کے معاملے میں مزعومہ غیرجانبداری کی وجہ سے ، ذمہ داری، جوابدہی اور افادیت جو اقدار کے ساتھ آتی ہے، اسے یا تو نظر اندازکردیا گیا ہے یا اس پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا ہے۔
اگر ایک شخص ان معاشی نا انصافیوں کی تحقیق کرتا ہے جن سے آج انسانیت دوچار ہے تو اس کے بنیادی اسباب جدید معاشی مفکرین کے فلسفیانہ فریم ورک میں تلاش کیے جاسکتے ہیں،جو معاشیات کو محض طلب اور فراہمی ٔ رسد کے قانون، ذاتی مفاد کے واحد قوت محرکہ ہونے،اور مناسب ترین وسائل کا بہترین تقسیم کنندہ منڈی کے ہونے کی اصطلاحات میں دیکھتے ہیں۔عالمی معیشت کی موجودہ حالت اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ ان مفکروں کی جانب سے جن قوانین کے فطری اور آفاقی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھاوہ آخری حد تک غیر فطری تھے۔
اسی طرح سوشل سائنس کے جدید رویوں میں پائے جانے والے مسائل، ’’مقدار‘‘ (Quantity) پر ضرورت سے زیادہ زور دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں ’’معیار‘‘ (Quality) کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ یقینا مقدار اہم اور لازمی ہے لیکن سارا زوراسی پردینے کا نتیجہ یہ ہے کہ سماجی علوم میں ساری ترقی ان جہتوں میں ہورہی ہے جو مقدار سے متعلق ہیں جبکہ معیاریا تو صرفِ نظر کا شکار ہیں یا توجہ کی کمی کا۔مقداری طریقوں اور ریاضی کا استعمال اگرچہ معاون ہے لیکن عمرانی علوم میں ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور یہ سمجھنا کہ صرف قابل شمار اور قابل پیمائش چیزیں ہی حقیقی سائنٹفک دائرے سے متعلق ہیں،عمرانی علوم کی پورے کام خصوصاً پالیسی سازی میں ایک بڑی غلط روی کی نمائندگی کرتا ہے۔مختصراً یہ وہ سبب ہے جس کی بناء پر اس حقیقت کا احساس بڑھ رہا ہے کہ ریاضی کے آلات کے ذریعے تحقیق میں سوشل سائنس ان جہتوں کونظر انداز کرنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے جنہیں قابل شمار اور قابل پیمائش جہتوں سے کہیں زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔
تخصص کے نام پرسوشل سائنس کے مختلف شعبوں کا غیرضروری طور پر الگ الگ رکھا جانا، مغربی ماڈل کا ایک اور تباہ کن پہلو ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی وجود کلی حیثیت کا حامل ہے اور علم، دانش یا معرفت ایک متحد شے کا نام ہے۔علم و دانش کی مختلف شاخوں کا مقصد باہمی استفادہ اور ایک دوسرے کو مستحکم کرنا ہے۔اسے زرخیزی کا عمل( فرٹیلائزیشن) کہا جاتا ہے۔لیکن جدید دانش کو، اس کے بجائے سائنسی علوم کی ایک لمبی قطار کا سامنا ہے جن میں سے ہر ایک الگ تھلگ ہے اور صرف ایک ہی موضوع اس کی تمام تر توجہ کا مرکز ہے۔اس طرز فکر کی رو سے پورے انسان کو ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے سیاق میں سمجھنا ممکن ہے ۔ لیکن جب ایک شخص معاشیات، عمرانیات، نفسیات یا کسی اور میدان پر نگاہ ڈالتا ہے، تو وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ دانش کی تقسیم کی بناء پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھے گئے یہ سماجی علوم دراصل ایک ہی کل کا حصہ ہیں۔ تخصص اگرچہ اچھی چیز ہے لیکن انسان کی حقیقت کی زیادہ گہری معرفت کی قیمت پر اس کا اطلاق برعکس نتائج کا سبب بنتا ہے۔
جواب دیں