تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

 

بحران کا اطلاقی پہلو
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، معاشیات کاعمرانی علوم کے ایک میدان کے طور پر اور تحقیق کے مغربی ماڈل کے ٹسٹ کیس کی حیثیت سے تجزیہ کرنامفید ہوگا۔ معاشی موضوعات مثلاً کیا پیدا اور کیا صرف کیا جائے، اوروسائل کا تبادلہ اور تقسیم کیسے ہو، ابتداء ہی سے انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ذاتی مفاد اور منافع کی طلب کے محرکات، حتیٰ کہ منڈی کا تصور بھی نیا نہیں ہے۔ ہم عصر معاشیات اور سرمایہ دارانہ نظام میں جو چیز فی الحقیقت نئی ہے اور جسے ہم عصر معاشیات میں جڑواں بھائیوں جیسی حیثیت حاصل ہے، وہ یہ خیال ہے کہ ذاتی مفاد وہ واحد عامل ہے جو انسانی انتخاب کا تعین کرتا ہے، اور ہر ایک کے اپنے ذاتی مفاد کے پیچھے دوڑ نے کے نتیجے میں سب کے مفاد کی تکمیل کی منزل خود بخود حاصل ہوسکتی ہے۔اور یہ کہ وسائل کی سائنٹفک اور معروضی تقسیم صرف منڈی کے نظام (مارکیٹ میکانزم) کے ذریعے ہی عمل میں آسکتی ہے۔اس طرح معاشرہ گھٹ کر معیشت، معیشت گھٹ کر منڈی، اور منڈی گھٹ کر طلب اور رسد کا کھیل بن گئی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیامارکیٹ بنیاد پرستی کا یہ فلسفہ دنیا کے تمام انسانوں کی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب رہا ہے؟موجودہ عالمی معاشی بحران نے ، پوری دنیا کئی سال سے جس کی گرفت میں ہے،عملاً اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔اس بات کو مزید اختصار سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ محتاط اندازوں کے مطابق اس بحران نے ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک، صرف دوسال میں پوری انسانیت کی ایک تہائی دولت کا صفایا کردیا ہے۔بینک اپنی بحالی(Bailout) کے لیے اربوں ڈالر ایسے وقت میں وصول کررہے ہیں جب کروڑوں انسان اس بحران کے اثرات کی بناء پر بے روزگاری اور رئیل اسٹیٹ کے جرائم یا ناکامی کی شکل میں شدید مصائب کا شکار ہیں۔ حکومتیں بینکوں کو زندہ رہنے کے لیے مالی وسائل فراہم کررہی ہیں جبکہ امریکہ میں گھر رکھنے والے تیس لاکھ شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
بلاشبہ بحران بھاری نقصانات کا سبب بنتے ہیں مگر وہ اپنے ساتھ پالیسیوں پر از سرنو سوچ بچار کے مواقع بھی لاتے ہیں اور موجودہ بحران نے بھی یہ موقع مہیا کیا ہے۔اس نے عام لوگوں کو بالعموم اور اہل فکر و دانش کو بالخصوص متبادل راستوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔نظام سرمایہ داری اورمارکیٹ بنیاد پرستی(Market fundamentalism) کے بعض کٹر وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ کچھ بدعنوان اور لالچی لوگ اس بحران کا اصل سبب بنے ہیں جبکہ اس میں مالیاتی نظام کی ناکامی، بینکاروں، بھاری منافع کی امیدپر کی گئی پُرخطر سرمایہ کاریوں، hedge funds اور derivatives وغیرہ کا حصہ بھی ہے۔ان متشدد مارکیٹ بنیاد پرستوں کے خیال میں اگر قواعد و ضوابط بہتر ہوتے تو صورت حال اتنی خراب نہ ہوتی۔
بہرکیف زیادہ گہرائی میں سوچ بچار کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ اگرچہ یہ دونوں نکات درست ہیں تاہم بحران اس سے زیادہ سنگین ہے جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔یہ ناکامی پوری معیشت اور مالیاتی نظام، اس کی بنیادوں، میکانزم، اورطریقوں کی ہے۔یہ وہ سیاق ہے جس میں اہل علم و فکر اور تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد آج بہ آواز بلند کہہ رہی ہے کہ یہ محض معیشت کی ناکامی نہیں ،یہ علم معاشیات، اس پورے نظام اور اس کی ترقی کے تصور کے پیچھے کارفرما بنیادی فلسفے، اور اس کے ان طریقوں کی ناکامی ہے جن کے ذریعے پوری صورت حال کو دیکھا جاتا رہا ہے۔ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ معاملات کو نصابی کتابوں اور پالیسی مینولز سے بلند ہوکر اور موجودہ معاشیات کے فلسفے کی عین بنیادوں، اس کے اصولوں اور اقدار پر نئے سرے سے غور وفکر کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔اخلاقی خسارہ اور روحانی پہلو کا فقدان وہ چیز ہے جسے معاشیات اور دوسرے سماجی علوم کی طرف سے ایک غیر متعلق شے کی طرح یکسر نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی ضرورت کا از سرنو احساس ابھر رہا ہے۔ حرص و ہوس اس لعنت کا سبب بنی کیونکہ اس پر گرفت کرنے کے لیے کوئی نظام اخلاقیات موجود نہیں تھا۔
تیزی سے گِرتی آزاد منڈیوں اور ڈوبتی عالمگیر معیشت پر نوبل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز کی جانب سے ایک بڑا دلچسپ مطالعہ اس سیاق میں بہت اہم ہے۔ وہ اپنی کتاب ۲ Freefall: America, Free markets and the Sinking of the Global Economy میں کہتا ہے کہ
’’اس بحران سے باہر نکلنے کے لیے محض ’’اِدھر اُدھر تھوڑی بہت ٹھوکا پیٹی‘‘ اور مرمت کافی نہیں ، اس کے بجائے حقیقی اصلاحات کی ضرورت تھی اور ہے جو صرف دکھانے کے لیے نہ ہوں۔‘‘
وہ مزید کہتا ہے کہ :
’’ اگر امریکہ اپنی معیشت کی اصلاح میں کامیاب ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ معاشیات کی اصلاح شروع کرسکے۔‘‘

 ’’ہم میں سے بیشتر لوگ یہ سوچنا پسند نہیں کریں گے کہ ہم انسان کے بارے میں اُس نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہیں جو موجودہ معاشی ماڈلوں میں مضمر ہے، جس کی رو سے انسان حساب کتاب کرنے والا، عقلیت پسند، خود غرض اور مفاد پرست فرد ہے۔ اس کے رویوں میں انسانی ہمدردی، عوامی فلاح کے جذبے، اور بے لوث ایثار کی کوئی گنجائش نہیں۔ ‘‘
 ’’ایک نئی معیشت کی پیدائش‘‘ ۳ (The Birth of a New Economy) کے موضوع پر ایک اور نہایت دلچسپ مطالعہ اناطولی کالاتسکی کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔وہ موجودہ معاشی نظام سے جس قدر بیزار اور نالاں ہے اس کا اندازہ اس کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے:
 ’’آج معاشیات ایک ایسا شعبۂ علم (ڈسپلن) ہے جسے یا تو لازماً مرجانا چاہیے یا اس کاماڈل تبدیل ہونا چاہیے، جو اِسے زیادہ وسیع النظر، زیادہ روادار اور متواضع بنائے۔اسے دوسرے سماجی علوم( سوشل سائنسز) کی بصیرت و فراست کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے افق کووسیع کرنا چاہیے․․․․ معاشیات یا تو تیزی سے اپنی اصلاح کرے گی یا یہ پورا ڈسپلن موت کے گھاٹ اتر جائے گا۔‘‘
    ایک اور نوبل انعا م یافتہ دانشور رابرٹ فوگل ان موضوعات کا ذکر بحران سے پہلے ہی ۲۰۰۱ء میں اپنی کتاب۴ـ”The Fourth Great Awakening and the Future of Egalitarianism” میں کرچکا ہے۔ اصل مسئلے کی صورت گری اس نے جس طرح کی ہے وہ جامع و مختصر اور واضح ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’نئے ہزاریے کے طلوع ہونے کے موقع پر یہ نازک اور حساس معاملات باقی نہیں کہ کیاہم کاروباری سلسلے کو چلا سکتے ہیں اور کیا معیشت کے اطمینان بخش شرح سے ترقی کرنے کے امکانات موجود ہیں۔یہ سوال بھی باقی نہیں رہا کہ کیا ہم گزشتہ صدی میں مساوات(Egalitarianism) کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کی قربانی دیے بغیر معاشی ترقی جاری رکھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ پچھلی کامیابیوں کو مستحکم کرنے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا،تاہم امریکہ میں مساوات کے نظریے کا مستقبل جاری معاشی ترقی کو مساوات کے معاملے میں بالکل نئی اصلاحات کے مجموعے سے وابستہ کرنے کے حوالے سے قوم کی اہلیت پر منحصر ہے، جو ہمارے دور کی فوری روحانی ضروریات کے مطابق سیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ مقدس اور محترم بھی ہو۔روحانی (یاغیرمادّی) عدم مساوات آج اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے جتنا بڑا مسئلہ مادّی عدم مساوات ہے بلکہ شایداس سے بھی زیادہ۔‘‘
اور اس کے آخری الفاظ ہیں:
’’․․․․ہم اپنے پوتوں اور نواسوں کے لیے جو دنیا چھوڑ کرجائیں گے،وہ مادّی طور پر زیادہ خوش حال اور ماحولیاتی خرابیوں سے بڑی حد تک پاک ہوگی۔یہ ہماری نسل کی دنیا کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور توانا ہوگی۔ اخلاقی معاملات دانشورانہ زندگی میں مرکزی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اور ان معاملات کے ساتھ ان کا تعلق آج کے مقابلے میں روزمرہ زندگی کے بڑے حصے کے تانے بانے کی تشکیل کرے گا۔ فکری زندگی میں جمہوری اقدار کی ترویج اس دائرے کو وسیع کرے گی اور اس کے نتیجے میں سیاسی زندگی میں روحانی امور کا عمل دخل زیادہ گہرا ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ نئے اور پرانے مذاہب میں تصادم کی شدت میں اضافہ ہو لیکن آبادی کی اوسط عمر نمایاں طور پر بڑھ جائے گی ، اور امید کی جاسکتی ہے کہ عمر میں یہ اضافہ اپنے ساتھ بالغ نظری اور فکری توانائی لائے گا،اور ہمارے پوتوں اور نواسوں کو ہماری نسبت زندگی کے مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے میں مدد دے گا۔‘‘
یہ بحران ایک طرح سے ایک یاد دہانی ہے ۔ مروجہ فلسفوں، بنیادی اصولوں، اور منہاجیات (methodoligies) پر نظر ثانی کے لیے اہل عقل و دانش آواز بلند کررہے ہیں اور ان کی پکار سنی جاسکتی ہے۔ سماجی علوم( سوشل سائنسز ) کے یہ معاملات ایک نئے اسلوب کی مدد سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ کے متقاضی ہیں، ایساماڈل جو وسیع اور جامع بھی ہو اور جو دنیا کی سماجی اور طبیعی حقیقتوں کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔

مطلوبہماڈل
یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ مغربی فکر و تہذیب کے ارتقائی سفر کے تین سنگ میل نشاۃثانیہ، تحریک اصلاح اور روشن خیالیاسلامی فکر وعمل اور مغرب اور اسلام کے درمیان رابطے کے اثرات کا نتیجہ تھے۔ولیم ڈریپر کی کتاب ۵ ’’تاریخ معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ (History of the Conflict between Religion and science) میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے بعد کے دور میں مغربی دنیا میں تجربی طریقہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان براہ راست رابطے اور تعاون کے نتیجے میں متعارف ہوا۔وہ مختلف ادوار میں سائنس اور مذہب کے درمیان پورے تنازع اور تصادم کا جائزہ بھی لیتا ہے،اور توثیق کرتا ہے کہ مسلم دور میں ایسا کوئی تنازع نہیں تھا۔ایک اور بڑادلچسپ مطالعہ رابرٹ بریفالٹ کی کتاب ’’انسانیت کی تشکیل‘‘ ۶ (The making of Humanity) ہے، جسے بلاشبہ علم و دانش کے طویل سفر کی تاریخ کہا جاسکتا ہے،اس کتاب میں وہ کہتا ہے کہ استقرائی طریقے(Inductive method)کی بنیاد مسلمان سائنس دانوں اور دانشوروں نے رکھی اور یورپ نے یہ طریقہ مسلمانوں سے سیکھا۔جارج سارٹن جو سائنس کا ایک بڑا مؤرخ ہے، اپنی کتاب ’’تعارف تاریخ سائنس‘‘ ۷ (Introduction to the History of Science) میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں سائنس کے ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں نے کس طرح چار صدیوں تک ان طریقوں کے ذریعے مختلف ایجادات کیں۔’’ایک ہزار ایک ایجادات: ہماری دنیا میں مسلم ورثہ ‘‘ ۸ (1001 Inventions: Muslim Heritage in our world) کے عنوان سے منظر عام پر آنے والا ایک تازہ مطالعہ اس ضمن میں ایک اور نہایت چشم کشا کاوش ہے۔
جہاں یہ بات درست ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں سماجی علوم نے ایک امتیازی شکل اختیار کی،اور باضابطہ اور منظم علم کی حیثیت سے اصول، اقدار، معیارات اور منہاجیات کے ساتھ پختگی کے دور میں داخل ہوئے،وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی اسلوب اس معنی میں محدودیت پسند (Reductionist) ہی رہے کہ وہ سائنس اورخدا،سیکولر اور مقدس، طبیعیات اور ماوراء ا لطبیعیات کے مابین تقسیم و تفریق بھی اپنے ساتھ لائے۔جبکہ جس اسلوب کو مسلمان فضلاء اور محققین نے اپنے دور میں اختیار کیا تھا، اس نے سائنس اور مذہب کے درمیان انتخاب کا کوئی مخمصہ پیدا کیے بغیر علوم کو ترقی دینے میں ان کی پوری مدد کی۔اس بناء پر اسلامی اسلوب کے اصول و مبادی ، علم موجودات اور نظریہ علمی کے حوالے سے اس کے فر یم ورک اور موجودہ سیاق کے اندرتحقیق کے عمل میں اس کے اطلاق کو سمجھنا ضروری ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے