تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات

 

اختتامیہ
اسلامی اور سیکولر دومختلف اسلوب(Paradigm) ہیں، لیکن اپنی جامعیت اور ہمہ گیریت کی بناء پر اسلامی اسلوب کی برتری واضح ہے۔سیکولر اسلوب جہاں اپنے محدود، چنیدہ اور جانبدارانہ رویے کے سبب نتائج دینے میں ناکام رہا ہے،اسلامی اسلوب وہاں ایک جامع ماڈل پیش کرتا ہے جس میں خدائی ہدایت اساسی ماخذ ہے ، وجدانی ماخذانسانی تکملہ کی حیثیت رکھتا ہے، عقل، استدلال، معقولیت، اور تجربی طریق کار بنیادی آلہ ہے۔اسلامی اسلوب میں ان چاروں منہاجیات کے درمیان کوئی تنازع نہیں اور تحقیقی عمل میں ان میں سے ہر ایک کا اپنا مقام اور کردار ہے۔یہ وہ جامع اور ہمہ گیر طرز فکر ہے جو ہر اس چیز سے استفادہ کرسکتا ہے جو حاصل کی جاچکی ہے خواہ وہ سیکولر اسلوب ہی میں کیوں نہ ہو۔اور یہ وہ اسلوب ہے جو انسانیت کی خدمت کے لیے وسائل کو ترقی دینے اور استعمال کرنے اورانصاف پر مبنی بہتر عالمی نظام کے قیام کی کوششوں میں انسانی ذہن کی معاونت کرتا ہے۔دین و دنیا کی یکجائی اسلامی اسلوب کا امتیازی نشان ہے ۔یہ استخلاف کے نظریے کو رو بہ عمل لانے کا ذریعہ بنتا ہے جو خالق کائنات کی جانب سے زمین پر انسان کو تفویض کی جانے والی ذمہ داری ہے۔
اکیسویں صدی کے علماء و فضلاء اور تحقیق کاروں کو ایسے علمی نظریے کو پروان چڑھانا چاہیے جو اسلام کے جامع اسلوب کے ساتھ چل سکے۔اس مقصد کے لیے آزاد و خودمختار ناقدانہ سوچ اور درست زاویہ نگاہ ضروری ہے۔آج کی دنیا میں سماجی علوم کی ایک بہت بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے تجزیے پر ہی ساری توجہ مرتکز کیے رکھی اور بصیرت(Vision) سے کام نہیں لیا۔جبکہ درست نتائج تک پہنچنے کے لیے تجزیے اور بصیرت کو لازماً ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔رابرٹ ہیل برونر اور ولیم مل برگ کی کتاب ’’جدید معاشی فکر میں بصیرت کا بحران‘‘ ۲۱ (The Crisis of Vision in Modern EconomicThought) اس حوالے سے ایک اہم مطالعہ ہے۔اس کتاب میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ بصیرت کے بغیر تجزیہ کس طرح بانجھ اور بے ثمربلکہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا آج کی دنیا کے تحقیق کار درست زاویہ نگاہ اور ہمہ گیر و جامع طرز فکر کے ساتھ تجزیے کی تکنیکوں اور تراکیب سے کام لے کرپچھلی صدیوں کی ناکامیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔اولیور گولڈ اسمتھ کے یہ الفاظ اس مقام پر بہت برمحل ہیں: ’’ہمارے لیے اصل سرمایہ افتخار کبھی نہ گرنا نہیں بلکہ ہر بار گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہونا ہے ۔‘‘ ۲۲ اس لیے ناکامیوں سے سبق سیکھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نئی نسل ان علمی و فکری، ثقافتی، معاشی اور سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کمر کس لے جن سے آج کے انسان کو سابقہ درپیش ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ اور طلبہ کے کاندھوں پر قیادت اور تازہ فکر فراہم کی کرنے کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہم بہت سی تہذیبوں کا عروج اور زوال دیکھتے ہیں،لیکن ان سب میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان کا عروج فکر کے میدان میں قیادت، اختراع و تخلیق کی صلاحیت،اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فعال و متحرک طرز عمل سے وابستہ رہا ہے جبکہ ان کے زوال میں ہمیشہ فکری پس ماندگی، نقالی،دوسروں پر انحصاراور تخلیقی صلاحیت کا فقدان جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں۔مسلم دنیا کے اہل فکر و دانش، جن پرسماجی اور طبعی علوم کے میدانوں میں ترقی کے اسلامی ماڈل کو متعارف کرانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،انہیں علمی و فکری قیادت فراہم کرنی چاہیے اور دنیا کے سامنے استخلاف کے فراموش کردہ تصور کو نمایاں کرنا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو ایک مقصد کے ساتھ ایک مشن اور ذمہ داری کے لیے تخلیق کیا گیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انہیں خدائی ہدایت پر عمل اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کرنی ہے۔یہی روش دنیا اور آخرت دونوں میں فلاح و کامیابی کی ضامن ہے۔
                ) ترجمہ: ثروت جمال اصمعی (

………………………… حواشی …………………………
۱۔ القرآن، ۹۱:۸
2. Stiglitz, Joseh E., "Freefall: America, Free Markets, and the Sinking of the World Economy”, W. W. Norton & Company, New York, 2010.
3. Kaletsky, Anatole, "Capitalism 4.0: The Birth of a New Economy”, Bloomsbury, London, 2010.
4. Fogel, Robert William, "The Fourth Great Awakening &The Future of Egalitarianism”, The University of Chicago Press, Chicago, 2000.
5. Draper, John Willian, "History of the Conflict between Religion and Science”, New York: D. Appleton and Company, 1875.
 6. Briffault, Robert, "The Making of Humanity”, London: Allen and Unwin, 1921.
 7. Sarton, George, "Introduction to the History of Science”, Malabar: Krieger Publishing, 1975.
8. Al-Hassani, Salim. T. S., Elizabeth, Woodcock and Rabah Saoud, "1001 Inventions: Muslim Heritage in Our World”, London: Foundation for Science, Technology and Civilization (FTSC), 2007.
۹۔ القرآن، ۹۶ :۵-۱
۱۰۔ القرآن، ۲:۳۱
۱۱۔ القرآن، ۲ :۳۸
۱۲۔ القرآن، ۸۸ :۲۰-۱۷
۱۳۔ القرآن، ۲:۱۴۴
۱۴۔ ابو یوسف، کتاب الخراج (عربی)
, 15. Al Faruqi, Ismail Raji, "Al Tawhid: Its Implications for Thought and Life” Issues in Islamic Thought, no. 4 (1994).
۱۶۔ محمد اقبال، ’’کلیاتِ اقبال فارسی‘‘ ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور
 17. Mohammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam”, Shaikh Muhammad Ashraf, Lahore.
۱۸۔ القرآن، ۱:۵
۱۹۔ القرآن، ۲ :۱۸۵
۲۰۔ القرآن، ۲:۳
 21. Heilbroner, Robert and Willian Milberg, "The Crisis of Vision in Modern Economic Thought”, New York: Cambridge University Press, 1996.
 22. Goldsmith, Oliver, "Letters from a citizen of the World”, London: N Cooke, Milford House, Strand, 1854.

)ماخذ:   مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، سال ۲۰۱۳ کا پہلا شمارہ(

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے