وفاقی بجٹ 2010 : ایک جائزہ
تناظر
مالی سال 2010-11 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سے25جون 2010 کو منظور ہو گیا ہے۔ بجٹ پر بحث کےدوران اگرچہ اس میں تبدیلی کی کچھ تجاویز مان بھی لی گئی ہیں لیکن بجٹ کی بنیادی ہیئت وہی ہےجو پیش کئےجانےکےوقت تھی۔ یہ موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ ہےجو اپنی انتخابی معیاد کا تقریباً نصف حصہ مکمل کر چکی ہے۔ یہ بجٹ ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کےمنظور ہو جانےکےبعد پیش کیا گیا ہےجنہوں نےمرکز اور صوبوں کےدرمیان وسائل اور ذمہ داریوں کی تقسیم کےلئےایک نیا فریم ورک فراہم کیا ہے۔
دوسری طرف ملکی حالات جو منظر نامہ پیش کر رہےہیںان میںسب سےنمایاںسلامتی کی گھمبیر صورت حال ہے۔ اس کےبعد ملکی تاریخ کا سب سےبدترین توانائی کا بحران ہےجس نےملکی معیشت کو مفلوج اور ہر پاکستانی کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس صورت حال کو طرز حکمرانی پر اٹھنےوالےکئی دیگر سوالات نےاور بھی زیادہ نمایاںکر دیا ہے۔ ان میںحکومت ،اس کےاداروںاور فیصلہ سازی کےمراحل پر عوام کےاعتماد میںبڑھتی ہوئی کمی نمایاںترین ہیں۔ PEWریسرچ سنٹر کےتازہ ترین سروےمیںسامنےآیا ہےکہ پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت حکومت کی معاشی پالیسیوںاور اقتصادی صورت حال سےمطمئن نہیںہے۔ 78فی صد افراد اقتصادی صورت حال کو بد ترین گردانتےہیںاور 89فی صد کی رائےمیںموجودہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ عمومی طور پر یہی تصور کیا جاتا ہےکہ زیادہ تر حکومتی فیصلےبیرونی دباؤ یا مداخلت کی باعث کئےجاتےہیںیہ دباؤ اور مداخلت طاقت ور ممالک کی طرف سےکی جاتی ہےیا پھر بین الاقوامی اداروںکےذریعےجو کہ انہی طاقت ور ممالک کےزیر اثر ہیں۔
بجٹ کو کیونکہ کئی زاویوں سےپرکھا جا سکتا ہےاور معاشرے کا ہر طبقہ اسےاپنےنکتہ نظر سےجانچتا ہےاس لئےایک عام آدمی کےلئےبنیادی نکتہ یہ ہوتا ہےکہ بجٹ کی تجاویز اور اس کےپیمانےاس کی اپنی زندگی پہ کیا اثرات مرتب کرنےجا رہےہیں۔اس کےنتیجےمیںیہ سوال اٹھتا ہےکہ کیا بجٹ میںیہ صلاحیت موجود ہےکہ وہ حکومت کےنکتہ نظر ،صلاحیت ،قومی ایجنڈاکو اپنی اصلی شکل میںفروغ دینے
میں اس کےاخلاص اور عوام دوستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ در حقیقت یہی وہ مرکزی نکتہ ہےجس پربجٹ کےکسی بھی تجزیےکی بنیاد ہونی چاہیے۔کیونکہ اس طرح کا تجزیہ نہ صرف معیشت بلکہ زندگی کےتمام پہلوؤں کےلئےایک انتہائی اہم پالیسی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔
بجٹ کا درج ذیل تجزیہ انسٹی ٹیوٹ آ ف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی ایک ٹا سک فورس کا تیار کردہ ہےجس میںبجٹ ان ہی پہلوؤںسےپرکھنےکی کوشش کی گئی ہے۔
قومی معیشت پر ایک نظر
آنےوالےمالی سال کےبجٹ کا تجزیہ کرنےسےقبل یہ بات مفید ہو گی کہ موجودہ سال کےدوران اقتصادی کارکر دگی پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ بجٹ سےقبل شائع ہونےوالےتازہ ترین اقتصادی جائزہ میںبیان کیا گیا ہےکہ عالمی معاشی بحران اور اس کےنتیجےمیںپاکستانی برآمدات میںکمی ،توانائی اور پانی کی کمی اور سب سےبڑھ کر ملک کی سلامتی کی صورت حال میںبجتی خطرےکی گھنٹیوںجیسےکئی نمایاںچیلنجوںکےباوجود مالی سال 2009-10 ( جس کا اختتام 30جون 2010ء کو ہونا ہے)کےدوران معیشت میںبہتری کا رجحان نظر آ رہا ہے۔
GDP میںمجموعی اضافہ 4.1% ریکارڈ کیا گیا ہے۔ زرعی شعبےکےلئے3.8% کا ہدف رکھا گیا تھا اس سیکٹر نےتقریباً 2% اضافہ ظاہر کیا ہےجبکہ پچھلےسال یہ اضافہ 4% رہا تھا۔ صنعتی شعبےمیںیہ اضافہ 4.9% رہا ہےجبکہ پچھلےسال کے1.6%کےمقابلےمیںخدمات کےشعبہ میںاضافہ 4.6% رہا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کےذخائر کا حجم 16بلین ڈالر رہا ہےجس میںبیرون ملک کام کرنےوالےافراد کی ترسیل زر سال 2009-10 کےپہلےگیارہ ماہ میں8بلین ڈالر سےزیادہ رہی ہے۔
ایک طرف اگر شرح نمو کا عارضی تخمینہ اور دیگر چنداشاریےدیکھنےمیںبڑےتوانا ہیںتو دوسری طرف چند دیگر اہم معاشی اشاریےجو تصویر پیش کر رہےہیںوہ قطعی حوصلہ افزا نہیںہے۔ افراط زر کو اگرچہ قابو میںرکھا گیا ہےلیکن 11.5% کی انتہائی بلند سطح پر ۔یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہیں،پورےملک کےحوالےسےآزاد ذرائع کےمطابق افراط زر کی حقیقی شرح اس سےبہت زیادہ بلند ہےخصوصاً کھانےپینےکی اشیاء میںجو کہ عام آدمی کی زندگی کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔
جولائی 2009ء سےاپریل 2010ء تک کےعرصےمیںپچھلےسال کےاسی عرصےکے3.2ارب ڈالر کےمقابلےمیںبراہ راست بیرونی سرمایہ کاری (Forign Direct Investment) FDI 45% یعنی 1.8بلین ڈالر تک کم ہوئی ہے۔ اگر چہ تجارتی اورجاری حسابات کےخسارےرواںسال کےابتدائی 10ماہ میںکم ہوئےلیکن پھر بھی یہ بہت بلند درجہ پر بالترتیب 12.2ارب ڈالر اور 6.5 ارب ڈالرہیں۔
GDP کےتناسب سےٹیکس کی شرح 9%رہی جو ٹیکس کےبنیادی نظام میںموجود کمزوری برقرار رہنےکی نشاندہی کر رہی ہےاور کسی بھی ترقی پذیر ملک کےنقطئہ نظر سےانتہائی کم ہے۔دوسری جانب یہ بھی ایک ناخوشگوار حقیقت ہےکہ ٹیکس کا موجودہ نظام استحصال پر مبنی ہے۔ کل جمع شدہ محصولات میں62%حصہ براہ راست ٹیکس کا ہےجبکہ کل 170بلین آبادی میںسےانکم ٹیکس ادا کرنےوالوںکی تعداد 1.7ملین ہے۔
ملکی قرضہ خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اکنامک سروےکےمطابق مارچ 2010ء کےاختتام تک اس کی سطح 8160ارب روپےہو چکی ہےجو کہ GDP کا 56%بنتا ہے۔اگرچہ یہ اعداد بھی خطرےکی حدوںکو چھو رہےہیںپھر بھی رپورٹس یہ بتا رہی ہیںکہ اکنامک سروےنےملکی قرضےکی تعریف توڑمروڑکر پیش کی ہےاور اس میںسےIMFکی طرف سےتوازن ِ ادائیگی کی مد میںدی گئی قرضےکی رقم کومنہا کر دیا ہےجسےشامل کیا جائےتو کل رقم 9000 ارب روپےتک جا پہنچتی ہےگویا GDPکے60%کےقریب جو کہ پارلیمنٹ کے2005 میںمنظور کردہ قانون (Fiscal Responcibility and Debt Limitation Act 2005 ) کےتحت ایک متعینہ حد ہے۔
اقتصادی جائزہ میںغربت کےحوالےسےتازہ ترین اعداد و شمار موجود نہ ہونےکی نشاندہی کی گئی ہےجس کےنتیجےمیںیہ تجزیہ کرناممکن نہیںرہا کہ پچھلےدو سال میںغربت ،عدم مساوات اور معیار زندگی پر مرتب ہونےوالےاقتصادی ترقی کےثمرات کیا رہےہیں۔ سروےمیںیہ تصور کیا گیا ہےکہ افراط زر میں25%سےکم ہو کر 11.5 %تک ہوجانےاور ترسیلات زرمیںاضافےنےغربت کی صورت حال پہ مثبت اثرات مرتب کئےہوںگے۔ تاہم زمینی صورت حال یہ ہےکہ غربت میںہر پہلو سےاضافہ ہو چکا ہے۔ غربت کےخاتمےکےنام پر شروع کئےجانےوالےاقدامات میںسےبےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) جیسےمنصوبوںمیںکہیںبھی لوگوںکی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنےکا نکتہ شامل نہیںہے۔در حقیقت صرف معمولی نقد رقم کی امداد تک محدود ان منصوبوںکےذریعےغربت کا خاتمہ قطعی ممکن نہیں۔ جبکہ وقتی ریلیف کےاس پروگرام کی شفافیت کےبارےمیںبھی متعدد سوالات موجود ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کی سطح بہت پست ہے۔ تعلیم اور صحت جیسےسماجی خدمات کےشعبوںمیںلگائی گئی رقم خطہ کےدیگر ممالک کو سامنےرکھ کر بھی پرکھی جائےتو بھی انتہائی کم ہے۔
گزشتہ برسوںکی طرح 2009-10ء میںبھی دو عوامل یعنی دہشت گردی کےخلاف جاری جنگ (WoT) اور توانائی کےبحران نےقومی معیشت کو بری طرح متاثر کیےرکھا ہے۔ حکومت نےان رکاوٹوںکا احساس کر لیا ہےجن کا سامنا ملکی معیشت کو ان دو عوامل کےباعث کر نا پڑرہا ہے۔ اقتصادی جائزہ (صفحہ نمبر … ) کےمطابق 2002 ء سےاپریل 2010ء تک پورےملک میںدہشت گردی کےکل 8141 واقعات ہوئےہیںجن میں(عام شہریوںاور قانون نافذ کرنےوالےاداروںکےافراد سمیت) ہلاک ہونےوالےافراد کی تعداد 8875 ہےاور جو افراد زخمی ہوئےان کی تعداد 20675 ہے۔ صرف 2009-10ء کےایک سال میںدہشت گردی کےکل 1906 واقعات میں1835 افراد ہلاک اور 5000سےزائد افراد زخمی ہوئے۔
انسانی جانوںکےنقصان کےعلاوہ جائیداد ،آمدنی اور ذرائع معاش کو پہنچنےوالےشدید نقصانات نےمعیشت کو تباہ کر کےرکھ دیا ہےاور اقتصادی سر گرمیوںمیںرکاوٹیںکھڑی کر دی ہیں۔اس کی شدت میںاس وقت سےمزید اضافہ ہو گیا ہےجب دہشت گردی کےخلاف جنگ ایک نئےمرحلےمیںداخل ہوئی اور پاکستان آرمی کو سوات اور فاٹا کےعلاقوںمیںخود سےآپریشن شروع کرنا پڑا ۔ مالی سال کےدوران WoT کا جو نقصان ملکی اقتصادیات کو بھگتنا پڑا ہےاس کا اندازہ GDP کا 6% لگایا لگاہے۔ جو کہ تقریباً 11.5بلین ڈالر بنتا ہے۔ اسی طرح بجلی کی فراہمی میںرکاوٹوںکےباعث ملکی معیشت پہ جو اثرات مرتب ہوئےہین ان کا نقصان GDPکا 2% سےلےکر 2.5% تک بنتا ہے۔
اقتصادی جائزہ نےاقتصادی پالیسیوںکا تسلسل برقرار رکھنےکےلئےحکومتی عزم پہ کوئی رائےنہیںدی ہےجبکہ حقائق یہ ہیںکہ موجودہ حکومت کےصرف 27ماہ پر محیط دورمیںوزارت خزانہ میںچار وزیر آ چکےہیںجس سےایڈ ہاک بنیادوںپر کام کرنےکی روایت،اقتصادی انتظام و انصرام کےتسلسل میںکمی ،پالیسی سازی ،ترجیحات کےتعین اور موجودہ حکومت کےمستقبل پر نظر رکھنےکی صلاحیتوںکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ایسےشخص سےخال خال ہی کسی بڑی اور پائیدار تبدیلی کی توقع رکھی جا سکتی ہےجو مختصر دور کےلئےباہر کےملک سےوزار ت خزانہ جیسی بنیادی وزارت سنبھالنےکےلئےتشریف لائےہوں۔
بجٹ 2010-11ء – نمایاں خدوخال
وزارت مالیات کی طرف سےجاری کئےگئےبجٹ 2010-11ء کی دستاویز کےنمایاںخدو خال درج ذیل ہیں:
٭ بجٹ کا کل حجم 2764ارب روپےہےجو کہ 2009-10 ء میںاندازہ کی گئی رقم سے12.3% زیادہ ہے۔
٭ 2009-10 ء کے2299 ارب روپےکےمقابلےمیںوسائل کی دستیابی اندازاً 2598 ارب روپےہے۔
٭ FBR کا محصولات کےلئےٹارگٹ 1667 ارب روپےہے۔دوسری جانب Capital Recipts کا اندازہ 325 ارب روپےہےجبکہ پچھلےسال کے191 ارب روپےکی نسبت 70%اضافہ نظر آ رہا ہے۔
٭ بیرونی وصولیوںکا اندازہ 387ارب روپےرکھا گیا ہے۔
٭ مجمو عی اخراجات کا تخمینہ 2764 ارب روپےرکھا گیا ہے۔ جس میںموجودہ اخراجات 2009-10 کے78% کی جگہ 72%ہوںگے۔
٭ دفاعی اخراجات کے422 ارب روپےرکھےگئےہیں۔ (تاہم یہ براہ راست دفاعی اخراجات ہیںجبکہ سابقہ ریٹائرڈ فوجیوںکی پنشن سویلین بجٹ سےادا کی جائےگی )
٭ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کےلئے663ارب روپےرکھےگئےہیں۔
٭ بجٹ خسارےکا تخمینہ 685 ارب روپےلگایا گیا ہے۔
جہاںتک بجٹ میںدئےگئےاعداد و شمار کا تعلق ہےیہ بات تسلیم کر نا ہو گی کہ حکومت کےلئےکوئی معقول مالیاتی مواقع موجود نہیںہیںکیونکہ ایک طرف آمدنی کےذرائع توقع کےمطابق بڑھائےنہیںجا سکتےتو دوسری طرف بجٹ میںسےایک بہت بڑی رقم قرض کی ادائیگی اور دفاع کی مد میںخرچ ہو جاتی ہے۔ ان حالات میںاعداد و شمار میںاِدھر اُدھر معمولی تبدیلیاںہی مسئلےکا حل سمجھی جاتی ہیںاور یہی کچھ اس بجٹ میںبھی کیا گیا ہے۔ تاہم اسی موقع پر یہ سوال بھی اٹھتا ہےکہ ہم کس موقع پر سنجیدہ ہوںگےاور ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی وضع کرنےکا سوچیںگےجس کا مقصد مقامی وسائل کا استعمال اور قومی وسائل کو بروئےکار لاتےہوئےپیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور ملک کو خود انحصاری کی طرف لےجانا ہو۔ موجودہ حکمت عملی کی پہچان ہی یہ بن کر رہ گئی ہےکہ مالیاتی خلا کو پورا کرنےکےلئےفوری طریقہ مزید رقم قرض لینا سمجھا جاتا ہے۔ جس کےنتیجےمیں آنےوالےسال میںمالی حالات مزید تناؤ کا شکار ہوتےچلےجا رہےہیں۔
اہم اقدامات اور اعلانات :
بجٹ میںیکم جولائی 2010 ء سےشروع ہونےوالےمالی سال کےلئےاہم اقدامات کا اظہار کیا گیا ہے:
٭ تین ماہ کےلئےجنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح میں15سے16% اضافہ کیا گیا ہے۔
٭ یکم اکتوبر 2010ء سےویلیو ایڈ ڈ ٹیکس (VAT ) 15% کی شرح سےGST کی جگہ لےلےگا۔
(ابھی یہ اعلان کیا گیا ہےکہ VAT کا نفاذ نہیںکیا جائےگا ،لیکن دراصل یہ GST سسٹم کی نئی شکل ہو گی جو یکم اکتوبر سے اس کی جگہ لےگی)
٭ 131 بلین روپےہائیڈل ،تھرمل اور ایٹمی تونائی کےمنصوبوںکےلئےمختص کئےگئےہیں۔ جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک کی
معاونت سے20بلین روپےکےابتدائی سرمائےسےانرجی ڈویلمپنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔
٭ 23.15 بلین روپےشعبہ صحت کےلئےمختص کئےگئےہیں۔
٭ 32بلین روپےتعلیم کےلئےرکھےگئےہیںجس میں22.5 ملین روپےاعلیٰ تعلیم کےلئےہیں۔
٭ کسی بھی پیداوار پر کسٹم ڈیوٹی میںاضافہ نہیںکیا گیا ہے۔ سگریٹ ،اےسی اور فریج پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میںاضافہ کیا گیا ہے۔
٭ توانائی کےمتبادل ذرائع ،صابن کی پیداوار اور چاول کی برآمد کےلئےکچھ مراعات دی گئی ہیں۔
٭ قابل ٹیکس آمدنی کی مد میںاضافہ کر کےاسے3لاکھ روپےسالانہ مقرر کیا گیا ہے۔
٭ سرکاری ملازمین کو بنیادی تنخواہ میں50% کا عارضی ریلیف مہیا کیا گیا ہے۔ جبکہ گریڈ 1 تا 16 کےملازمین کےمیڈیکل الاؤنس کو دگنا کر دیا گیا ہےاور گریڈ 17تا 22 کےملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 15تا 20 % میڈیکل الاؤنس کی مد میں حاصل کر سکیںگے۔
٭ 2001 ء میںریٹائر ہونےوالےافراد کی پنشن میں20%اور 2001ء کےبعد ریٹائر ہونےوالوںکی پنشن میں15% اضافہ کیا گیا ہےکم از کم پنشن 3000 روپےمقررکی گئی ہےجبکہ فیملی پنشن 50 %کی بجائے75 % تک بڑھادی گئی ہے۔
بجٹ کےاقدامات اور تجاویز کا جائزہ
بجٹ کےاہداف کا حصول بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آ ف ریو نیو کا ہدف 1667 ارب روپےمقرر کیا گیا ہے۔جبکہ صورتحال یہ ہےکہ رواںمالی سال (2009-2010 ) میںمقرر کئےگئےابتدائی ہدف 1380ارب روپےمیںتین مرتبہ ترمیم کر کےاسےنیچےلایا گیا ۔ اور آخری نظر ثانی شدہ 1330ارب روپےکا ہدف بھی 30جون تک حاصل ہونا مشکل دکھائی دےرہا ہے۔اسی طرح مالی خسارہ کو GDP کے4فی صد کی حد میںرکھنےکا ہدف حقیقت پسندانہ دکھائی نہیںدیتا ۔فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان سےملنےوالی متوقع رقم کو بھی بیرونی وصولیوںکےتخمینہ میںشامل کیا گیا ہےجو اب تک کےتجربات کی روشنی میںبالکل بھی قابل بھروسہ نہیںہے۔
جیسا کہ پہلےکہا گیا ،بجٹ کا تجزیہ کرتےہوئےیہ بات ذہن میںرہنی چاہیےکہ ساتویںقومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کےاعلان کےبعد یہ پہلا بجٹ ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نےجہا ںایک طرف صوبوںکےمالی وسائل میںاضافی کیا ہے،کہ وہ مجموعی قابل تقسیم وسائل میںسےزیادہ حصہ پائیںگے،وہیںاس نےصوبوںکی ذمہ داریوںمیںبھی اضافی کر دیا ہے۔لیکن ایوارڈ میںجو وعدہ کیا گیا ہےوہ خود مختاری کےصحیح جذبےکا عکاس نہیںہے،کیونکہ صوبوںکومحصولات کی وصولی کےلئےاپنےوسائل متحرک کرنےکی اجازت نہیںدی گئی ہے۔ مزید برآں،وزارتوںاور سرکاری اداروںکو اٹھارویںترمیم کےنتیجےمیںختم ہونےوالی کنکرنٹ لسٹ کےبعد پیدا ہونےوالی صورت حال کو معمول کےمطابق بنانےکےلئےجس ناگزیر مشق کی ضرورت تھی ابھی تک اس کا آغاز بھی نہیںہو سکا ہے۔ اس حوالہ سےکوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہونےکی وجہ سےبہت سےپیچیدگیاںپیدا ہوںگی اور زندگی کےتمام شعبوںمیںترقی کا عمل متاثر ہو گا ۔
ایک اور بہت اہم مسئلہ دہشت گردی کےخلاف جنگ (WoT) کےمالی اثرات ہیں۔ بجٹ میںدہشت گردی کےخلاف جنگ کےاخراجات کا تخمینہ 130 ارب روپےسےکچھ زائد رکھا گیا ہے۔ اور اس کےمقابل اتنی ہی رقم وسائل کےضمن میںکولیشن سپورٹ پروگرام سےممکنہ وصولی کےطور پر دکھائی گئی ہے۔ ایسےمحسوس ہوتا ہےکہ بجٹ بنانےوالوںکو معیشت کو پہنچنےوالےبہت بڑےنقصان کا احساس و شعور ہی نہیںکہ ہم اس نقصان کو کس طرح پورا کریںگے۔ جبکہ سر کاری طور پر جاری کردہ تازہ اقتصادی جائزہ میںاس جنگ میںہماری شمولیت سےہماری معیشت کو پہنچنےوالےنقصان کا اعتراف موجود ہے(اکنامک سروےصفحہ نمبر 7-6 ) دہشت گردی کےحوالہ سےجنگ میںہماری پالیسی اگرچہ خالص اقتصادی مسئلہ نہیںہےلیکن یہ تسلیم کیا جانا چاہیےکہ اقتصادی دائرہ میںمنفی اثرات کےحوالہ سےیہ ملکی معیشت کےلیےبھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ تاکہ حکومت کےاندر یہ اعتماد اور احساس پیدا ہو کہ وہ بیرونی قوتوںسےبات چیت میںاپنی بہترین صلاحیتوںکو بروئےکار لائیںاور اپنےقومی ایجنڈےکا تحفظ کریں۔ اسی سےمتعلقہ کچھ اور مسائل بھی ہمارےساتھ لگےہوئےہیںجن میںسیکو رٹی کی بڑھتی ہوئی مشکلات ،امن و امان کی خراب صورت حال اور بہت سےبین الاقوامی وعدےجیسا کہ IMF سےVAT کےنفاذ کا وعد ہ ،شامل ہیں۔
بجٹ کا جائزہ لیتےہوئےیہ بھی مفید ہےکہ اسےحکومت کےاپنےمعاشی ایجنڈےکی روشنی میںپرکھا جائے۔ وزیر خزانہ نےبجٹ پیش کرتےہوئےسات مقاصد بیان کئےتھےیعنی (1) معیشت کا استحکام (2) افراط زر پر گرفت(3) خود انحصاری کےایک درجہ کا حصول (4 ) سماجی تحفظ کےنظام کےلئےاصلاحات اور بہتری کےاقدامات (5 ) پبلک سیکٹر کےتجارتی شعبہ کےبوجھ میںکمی (6) ملازمتوںکےمواقع پیدا کرنا (7 ) ملک کو سر مایہ کاری کےلئےزرخیز بنانا ۔ ان مقاصد کےساتھ ساتھ وزیر خارجہ نےزور دیا کہ حکومت دو میدانوںمیںخصوصی توجہ دےگی: توانائی اور خوراک کا تحفظ ۔ یقینا یہ بہت اچھےمقاصد ہیںتاہم بجٹ تجاویز ان بیان کردہ مقاصد سےبمشکل ہی ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں۔
ان پر گفتگو کےآغاز کےلئے،پہلا مسئلہ ہی لیتےہیںیعنی ایسا ماحول تشکیل دینا جس میںپیداوارمیںاضافےاور ترقی کےلیےراہ ہموار ہواورنتیجتاً معیشت مستحکم ہو ۔ بجٹ کسی ایسی جامع حکمت عملی سےعاری ہےجو معاشی سر گرمی ،سرمایہ کاری اور پیداوار کو مہمیز دے۔ بجٹ میںکوئی ٹھوس پروگرام نہیںدیا گیا جو مختصر مدت اور درمیانےعرصےکےلئےملک کو در پیش توانائی اور بجلی کےبحران کےبرےاثرات سےبچانےکےلئےہو یا کچھ ایسا راستہ دکھاتا ہو جس میںبجلی کی فراہمی کےلئےقابل اعتماد اور قابل برداشت انتظامات ہوں،کہ بجلی کسی بھی معاشی سر گرمی کےلئےلازمی بنیادی ضرورت ہے۔
ایک مرتبہ پھر ہمارا زور توانائی کی بچت کےاقدامات کو بڑھانےپر رہا جو توانائی کانفرنس (انرجی سمٹ ) کےبعد ہونےوالےاعلانات کےذریعےسامنےآیا۔ اس کانفرنس میںوزیر اعظم ،وزاء اعلیٰ اور دیگر متعلقہ ادارےاور افراد شریک تھے۔ توانائی کی ’’بچت ‘‘ پر زور دینا اپنی تمام تر اہمیت کےباوجود ’’پیداوار میںاضافے‘‘ کا باعث نہیںہو سکتا ۔ جبکہ یہ بھی معلوم ہےکہ کانفرنس میںاعلان کردہ اقدامات پر عمل کا جائزہ لینےکا اہتمام شائد ہی کیا گیا اور اب تک اس سےفائدہ بھی معمولی حاصل کیا گیا ۔
131 بلین روپےکی رقم جو ہائیڈل ،تھرمل اور ایٹمی توانائی پراجیکٹس کےلئےرکھی گئی ہےوہ زیادہ تر ان پراجیکٹس کےلئےہےجو ابھی ابتدائی مرحلہ پر ہیںاور ان کےثمرات حاصل ہونےمیںکئی برس لگ جائیںگے۔مختصر مدت کےحل کےطور پر حکومت کی توجہ مسلسل کرائےکےبجلی گھروں(RPPs )پر ہے،جبکہ یہ معلوم حقیقت ہےکہ وہ مہنگےہیںاور لاگت پر اضافی بوجھ بننےکےساتھ ساتھ قومی معیشت پر قرضوںمیںاضافہ کا باعث بنیںگے۔ 30کروڑانرجی سیور بلبوںکی مفت تقسیم قابل قدر اقدام ہےتاہم اس ضمن میںشفافیت کےحوالہ سےکئی سوالات جنم لیتےہیںنیز یہ بھی معلوم نہیںہےکہ تقسیم کا طریقہ کار اور نظام کیا ہو گا۔ بجلی پیدا کرنےوالےموجودہ پلانٹس میںان کی بےکار پڑی پیداواری صلاحیت کو استعمال کرنےاور اس نظام کی صلاحیت کار میںبہتری لانےکی طرف حکومت کی توجہ بہت کم ہے۔ جبکہ یہ اقدامات بجلی کی پیداوار میںاضافےکا باعث ہو سکتےہیںجو معاشی سر گر می جاری رکھنےکےلئےایک ناگزیر ضرورت ہے۔
معیشت کےاستحکام اور پیداواری عمل برقرار رکھنےکےنقطہ نظر سےتجارت پیشہ افراد کےلئےحکومت کی جانب سےکوئی ترغیب (Incentive)نہیںدی گئی ،خصوصاً صنعتوںکےفروغ کےلئے،جس کےبغیر استحکام یقینا ایک خواب ہی رہےگا ۔ ملک بھر میںتجارت پیشہ افراد میںیہ تاثر پایا جاتا ہےکہ حکومت نےسرمایہ کاری اور معاشی سر گرمی میںاضافےکےلئےکسی قسم کی مراعات کا اعلان نہیںکیا ۔
بیان کردہ دوسرا مقصد افراط زر پر گرفت ہے،لیکن اس مقصد کےحصول کےلئےساری توجہ صرف سخت مالیاتی پالیسی (Monetary Policy ) پر ہے۔ وسائل اور اخراجات میںبےپناہ تفاوت کےباعث قوی امکان ہےکہ حکومت خود اسٹیٹ بنک سےقرض لےگی ،جس سےافراط زر میںاضافہ ہو گا ۔ ساتھ ہی قیمتوں،خصوصاً بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں،کا موجودہ رجحان اس بات کو بہت مشکل بنا دےگا ۔ کہ افراط زر مقررہ ہدف تک محدود رہے۔اہم بات یہ ہےکہ چونکہ صرف کریڈٹ کو چیک کرنےسےمقصد حاصل نہیںہوتا اس لئےبعض معاملات میںحکومت کی مداخلت کی یقینی ضرورت ہے،جیسےاجارہ دارانہ جتھہ بندی (کارٹلنگ ) ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری جو قیمتوںمیںاضافےکےاہم اسباب ہیں۔ مزید برآںجنرل سیلز ٹیکس (GST)کی شرح میںاضافہ بھی قیمتوںمیںاضافہ کا باعث ہے۔ کسی بھی چیز کی قیمت کےتعین میںایک اہم عنصر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیںہیں۔ ایک رجحان یہ پایا جاتا ہےکہ ریونیو کی وصولی کےاہداف حاصل کرنےکےلئےپیٹرولیم مصنوعات کی قیمت پر بھاری ٹیکس عائد کر دئےجاتےہیں۔ جس کےنتیجےمیںقیمتوںاور افراط زر میںاضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسےکوئی آثار نظرنہیںآتےکہ آنےوالےبرس میںایسا نہیںہو گا ۔
خود انحصاری ،تیسرا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ بیرونی وسائل کےتخمینہ کےضمن میں387 ارب روپے(4.55ارب ڈالر ) تو خود بجٹ میںرکھ لئےگئےہیںظاہر ہےکہ ان کی موجودگی ملک پر قرضوںکےبوجھ میںاضافہ کرےگی اور 685 ارب روپےکا خسارہ بھی واضح طور پر ہماری معیشت پر بوجھ ہو گا ۔ خود انحصاری ہر سطح پر ایک قومی امنگ اور مخلصانہ عزم کا تقاضا کرتی ہےجو کہ معاشرہ میںہر سطح پر اس ہدف کےحصول کےلئےجد و جہد کرنےکی تیاری اور حکومت اور اس کےاداروںاور پالیسیوںمیںعوام کےبھرپور احساس شرکت ہی سےپیدا کی جا سکتی ہے۔ عملی سطح پر یہ قومی وسائل سےبھر پور استفادہ کرنےسےہی بہترین طور پر حاصل کی جا سکتی ہےجس کےلئےٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا اور زیادہ دولت مند طبقا ت کو اپنےتناسب کےمطابق زیادہ حصہ ادا کرنےپر تیار کرنا ضروری ہے۔ چھ ماہ تک رکھےجانےوالےشیئرز پر 10% اور چھ ماہ سےایک سال تک رکھےجانےوالےشیئرز پر 7.5% کیپٹل گین ٹیکس (CGT) عائد کیا گیا ہےجو کہ خوش آئند لیکن ناکافی ہے،نہ تو زرعی آمدنی پر ٹیکس لگایا گیا ہےاور نہ ان افراد کی آمدنیوںپر ٹیکس کےبارےمیںسوچا گیا ہےجو پہلےہی ماضی قریب میںپراپرٹی اور اسٹاک کی تجارت کےذریعےدولت سمیٹ چکےہیں۔ ان طبقات کو بھی اپنی آمدنی کےلحاظ سےملک کی مالی ذمہ داریوںکا بوجھ اٹھانا چاہیے۔ خود انحصاری کا ہدف اس پہلو سےبھی غیر متعلق ہو کر رہ جاتا ہےجب یکم اکتوبر 2010ء سے15% کی شرح سےتمام اشیاء اور خدمات پر ویلیو ایڈ ڈ ٹیکس (VAT ) کی تجویز ،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کےمسلسل اصرار پر شامل کی گئی ہو ۔ یہ ایک بہت برُی مثا ل ہےکہ آپ معیشت اور زندگی کےتمام شعبوںپر اس کےبرےاثرات کا شعور بھی رکھتےہوںاور پھر بھی بیرونی دباؤ کےسامنےسر جھکا دیں۔
ابتداً VAT کو یکم جولائی 2010سےنافذ کیا جانا تھا لیکن ملک بھر سےسامنےآنےوالےاحتجاج اور تحفظات کےپیش نظر اس فیصلےکوموخر کر دیا گیا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہےکہ VAT کےنفاذ سےملک میںاشیاء کی قیمتوںمیںاضافےاور مہنگائی کی ایک نئی لہر آئےگی۔ VAT کی خوبیاںاور خامیاںایک طرف،سب سےنمایاںمشکل یہ ہےکہ پاکستانی معیشت کی دستاویز بندی کےحوالےسےصورت حال اس کےلئےسازگار نہیںہے۔ ہر طرح کےٹیکس کےلیےبھرےجانےوالےفارم اور گوشوارےپیچیدہ ہیںاور تاجر طبقہ ہی نہیںخود ٹیکس مشنری بھی اتنی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نہیںہےکہ VAT کی دستاویز بندی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ اس صورت حال میںدستاویز بندی اور استعداد کاری کےحوالےسےہوم ورک کسی بھی قسم کےٹیکس کےنفاذ سےقبل بنیادی ضرورت بن جاتی ہے۔ یہ جان لینا بھی ضروری ہےکہ VAT سےجو زیادہ سےزیادہ رقم FBR جمع کرسکتا ہےوہ 65 ارب روپےہیں۔ یہ رقم ملک میںوسیع پیمانےپر ہونےوالی ٹیکس چوری پکڑکر آسانی سےحاصل کی جا سکتی ہےدوسری ،اندازہ ہےکہ سرکاری کارپوریشنوںکےغیر ترقیاتی اخراجات میںکمی /بہتری لا کر کم از کم 100 ارب روپےبچائےجا سکتےہیں۔
چوتھا مقصد سماجی تحفظ کےنظام کی اصلاح اور اس کی ترقی ہے۔ اس حوالےسےبےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میںرکھی جانےوالی ایک بھاری رقم کےعلاوہ باقی سب اقدامات معمولی نوعیت کےہیںاور ان سےنمایاںطور پر اثر انداز ہونےکی امید نہیںرکھی جا سکتی۔ دوسری طرف ضرورت اس سےکہیںزیادہ ہے،خاص طور پر ایسےوقت میںجب لوگ بھوک اور مفلسی سےتنگ آ کر اپنےبچوںکو زہر دینےپر مجبور ہیں۔ حتی کہ خود بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی سیاسی بنیادوںپر رقوم کی تقسیم اور کرپشن سےبری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
جہاںتک پانچویںمقصد یعنی سرکاری انٹرپرائز ز کی اصلاحات کا معاملہ ہے،توقع تھی کہ اصلاحات کا ایک سنجیدہ پیکج سامنےلایا جائےگا جس میںکارکر دگی کی جامع پڑتال ،آڈٹ،بری کارکر دگی کی وجوہات کاتعین ،کرپشن اور ناجائز اقدامات پر کڑی گرفت،آئندہ عرصےمیںاچھی کارگردگی کےلیےواضح ہدایات شامل ہوںگی اور ان قیمتی سرکاری اثاثہ جات کو سفید ہاتھی بنا دینےوالےعناصر کےلیےکڑی سزا ہو گی۔ اس کےبرعکس اس مقصد کو جلد ہی نظر انداز کرتےہوئےوزیر اعظم نےپاکستان اسٹیل ملز کےلیے25ارب روپےکی ایک بھاری رقم کا اعلان کر دیا۔
چھٹےمقصد،یعنی روزگار کی فراہمی کا حصول بھی ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ اس حوالےسےکچھ بنیادی اقدامات لمبےعرصےکےلیےبھی اور مختصر مدت کےلیےبھی کرنےضروری ہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہےکہ روزگار مہیا کرنا،باقی شعبوںمیںترقی سےالگ تھلک نہیںہے۔ اس کا تعلق معیشت کی عمومی نمو اور بالخصوص چھوٹےاور درمیانےدرجےکےکاروباروںکی ترقی سےہے۔ بجٹ اس میدان میںبھی کوئی نمایاںمحرکات سامنےنہیںلا سکا۔
اسی طرح،ساتویںمقصد یعنی ملک کو سرمایہ کاری کےلیےزرخیز بنانےکےحوالےسےبھی بجٹ میںکوئی واضح اقدامات سامنےنہیںلائےگئے۔سرمایہ کار،چاہےوہ مقامی ہوںیا غیر ملکی،امن عامہ کی صورت حال میںبہتری،توانائی کی بلا تعطل فراہمی اور مسابقت کی فضاکی تلاش میںہوتےہیں۔ وزیر خزانہ نےخود اپنی بجٹ تقریر میںتسلیم کیا ہےکہ پاکستان میںکاروباری لاگت کےبلند ہونےکےحوالےسےاصلاحات کی ضرورت ہےتاہم بجٹ میںایسےکوئی اقدامات نہیںکیےگئے۔
جہاںتک وزیر خزانہ کی تقریر میںسامنےآنےوالےقابل توجہ میدانوںکا ذکر ہے،توانی کےشعبےپربحث کی جا چکی ہے۔ دوسرا میدان غذائی تحفظ کا ہےاس حوالےسے،زراعت جو ہماری معیشت کا بنیادی ستون اور غذائی تحفظ کا بنیادی ضامن شعبہ ہے(اور GDP میں22 % حصےکےساتھ آبادی کےایک بڑےحصےکو روزگار بھی فراہم کرتا ہے) کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ زراعت کو جو مسائل درپیش ہیںان میںآبپاشی کےنظام کی خرابیاں،بیج،کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوںمیںغیر معمولی اضافہ اور زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ اور فروخت کےحوالےسےپیش آنےوالی مشکلات نمایاںہیں۔ ان پر بجٹ میںضروری توجہ نہیںدی گئی۔
تنخوا ہوںاور پنشن میںاضافےجیسےاقدامات قابل تحسین ہیں۔ اسی طرح قابل ٹیکس آمدنی میںاضافہ کر کےاس کو تین لاکھ روپےسالانہ کر دینا بھی کم آمدنی والےطبقےکےلیےایک اچھا قدم ہے۔ تاہم تین لاکھ روپےسےاوپر آمدنی پر ٹیکس کی شرح فوراً دوگنی،یعنی 3.5 % سے7.0 % فی صد کر دی گئی ہے۔ اس طرح کےاقدامات کا بوجھ واضح طور پر درمیانی آمدنی والےطبقےپر ہی پڑےگا۔ پینشنوںکےذیل میںبھی 2001سےبہت قبل مثلاً1990کی دہائی میںیا اس سےقبل ریٹائر ہونےوالےافراد کےلیےاسی مناسبت سےاضافےکی ضرورت ہے۔
انسانی اور سماجی ترقی کی اصل ضرورت تعلیم اور صحت کےشعبوںمیںاخراجات کو GDP کےتناسب سےنمایاںطور پر بڑھانا ہے۔ ملک میںآج تک ایسا نہیںہوا ہےاور حالیہ بجٹ بھی کواستثنیٰ نہیںہے۔ اس کےبرعکس،ان شعبہ جات کی حالت بدتر ہونےکا اندیشہ ہےکیونکہ یہ شعبہ جات اب صوبوںکو منتقل ہوگئےہیںاوراگر فوری توجہ نہ دی جائےتو کم از کم اس وقت صوبےان ذمہ داریوںسےعہد برا ہونےکےلیےابھی پوری طرح تیار نہیںاور ان کی استعداد کاری کی ضرورت ہے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کےحجم سےزیادہ اہم بات یہ ہےکہ اس میںرکھی جانےوالی رقوم میںسےکتنی نئےمنصوبوںپر خرچ ہونی ہیں۔ اور کتنےوسائل حقیقتاًاستعمال ہورہےہیں(PSDP) پر نظر ڈالنےسےمعلوم ہوتا ہےکہ اس میںبمشکل 10 فی صد نئےمنصوبےہیں۔2010-11کےباقی تقریباً 90فی صد منصوبےگذشتہ کئی سالوںسےچل رہےہیں۔ جاری منصوبوںمیںبھی تقریباً 65فی صد ایسےہیںجو کئی سال قبل مثلاً 2001کےPSDPمیںبھی موجود تھے۔اس سےیہ سوال بھی پیدا ہوتا ہےکہ ان منصوبوںپر لاگت کےتخمینےآج کتنےدرست ہیں؟یہاںیہ نشان دہی کرنا بھی مناسب ہو گا کہ 2009-10کےدوران وسائل کی کمی کی وجہ سےPSDPکےلیےرکھی جانےوالی رقوم میںواضح طور پر کمی کی گئی تھی۔اب جبکہ حکومت کہہ رہی ہےکہ 2010-11کےلیےPSDPکا حجم حقیقت پسندانہ ہے،بھاری خسارےاورغیر ملکی وسائل پر انحصار کو دیکھتےہوئےیہ کہا جا سکتا ہےکہ 2010-11کےدوران بھی PSDPکےمنصوبوںکو کٹوتی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس طرح کی کٹوتیوںکا اثر یہ ہوتا ہےکہ منصوبےموخر ہوتےجاتےہیںاور ان کی لاگت میںاضافہ ہوتا جاتا ہے۔نئےمنصوبوںکی تعداد کم ہونےسےنئی پیدا ہونےوالی ملازمتیںبھی کم ہی ہوتی ہیں۔
جس طرح کےوقت سےآج کل قوم گزرہی ہےاس کا تقاضا ہےکہ کفایت شعاری اوروسائل کےمطابق خرچ کی روش کو اپنایاجائے۔جبکہ غیر ضروری اخراجات کو قابو کرنےکےکئی دعوےکیےجا رہےہیں،حقیقی صورت حال اس کےبرعکس ہے۔بظاہر کابینہ کی تنخوا ہوںمیں10فیصد کمی کی گئی ہےلیکن کابینہ کےاخراجات کےلیےرکھی جانےوالی رقم بڑھادی گئی ہے۔جہاںتک کفایت شعاری کا تعلق ہے،اس کانظر آنےوالےاقدامات سےگہرا تعلق ہے۔اس مہم کو ارباب اقتدار و ا ختیار سےشروع کرنا ہو گا۔ایک حالیہ مثال جو کہ کفایت شعاری کا تمسخر اڑا رہی ہےوہ یہ ہےکہ وزیر قانون بار کونسلوںمیںواضح طور پر سیاسی مقاصد کےلیےرقوم تقسیم کرنےکی غرض سےجب کوئٹہ اورجنوبی پنجاب کےدورےپر گئےتو کمرشل پرواز کی بجائےفضائیہ کاطیارہ چارٹر کر کےلےگئے!اس طرح کی رپورٹس بھی ہیںکہ صدر مملکت نےاپنےصوابدیدی فنڈ کےلیےمختص رقم سےزائد خرچ کیا اس طرح کےاقدامات سےیقینا حکمرانوںاورعوام کےدرمیان اعتماد کی فضا کو ٹھیس پہنچتی ہےاوریہ تاثر ابھرتا ہےکہ حکومت مشکل فیصلےکرنےکےلیےسیاسی عزم نہیںرکھتی۔
کفایت شعاری کےحوالےسےیہ بھی اہم ہےکہ معاشرےمیںہر سطح پر اصراف کےکلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔مسلسل بڑھتی ہوئی ترسیلات زر کےپیداواری استعمال کےلیےکوئی سوچی سمجھی حکمت علمی نہ ہونےکی وجہ سےہی ہےکہ یہ بھاری رقوم ،اگرچہ وصول کرنےوالےخاندانوںکےمعیارزندگی میںکسی حد تک بہتری کا باعث تو بن رہی ہیںلیکن ان کا بالعموم استعمال غیر پیداواری شعبہ جات ہی میںہے۔ضرورت ہےکہ ان رقوم کو معاشی سرگرمی بالخصوص چھوٹےدرجےکےکاروباروںمیںلگانےکےلیےمنصوبہ بندی کی جائے۔
حاصل بحث
بجٹ تجاویز اوراقدامات پر ایک قریبی نگاہ ڈالنےسےمعلوم ہوتا ہےکہ وفاقی بجٹ برائےسال 2010-11، بحیثیت مجموعی ،نہ تو عوام دوست ہےجیسا کہ معاشی منتظمین کی طر ف سےدعوی کی جا رہا ہےاورنہ ہی معیشت کو درپیش غیر معمولی چیلنجز سےنبرد آزما ہونےکےلیےکوئی واضح حکمت عملی پیش کرتا ہے۔بجٹ میںایسا کچھ دکھائی نہیںدیتا کہ حکومت پر عوام کا اعتماد حقیقی طور پر بحال ہوجو کہ ان حالات میںنہایت ضروری ہےجس سےآج ہمارا ملک گزر رہا ہے۔یہ دستاویز اعدادوشمار میںچند جگہ پر ردوبدل سےزیادہ کچھ نہیںاور واضح طور پر معاشی پالیسی میںدرکار کسی حقیقی تبدیلی سےعاری ہے۔
جواب دیں