قومی معیشت کی صورت حال اور وفاقی بجٹ ۲۰۱۱۔ ۲۰۱۲ء
بجٹ محض آمدنی اور اخراجات کےگوشوارےکا نام نہیں ہے، بلکہ بجٹ پیش کرنےکےساتھ حکومت کو ایک اہم موقع ملتا ہےکہ وہ قومی سطح کےمعاشی مسائل سےنمٹنےکےلیےاپنی سوچ اور عزائم کو سامنےلائےاور فوری اور دُور رس دونوں قسم کےچیلنجوں سےنمٹنےکےلیےاپنی حکمتِ عملی قوم کےسامنےپیش کرے۔ بجٹ 2011-12ء موجودہ ’’منتخب‘‘ حکومت کا چوتھا بجٹ ہے۔
اس لیےتوقع تھی کہ اس موقع پر حکومتِ وقت ملک کو درپیش غیر معمولی چیلنجوں کےپیشِ نظر بہت احتیاط سےتیار کیےگئےپالیسی اقدامات اور منصوبہ کےساتھ سامنےآئےگی۔ موجودہ حالات کےپس منظر میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ تھی جبکہ ایک طرف حکومت کےمبینہ غیرشفاف معمولات میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف نہ صرف حکومت کی اہلیت، سوچ اور انتظامی طرزِ عمل کےبارےمیں سوالات اُٹھ رہےہیں بلکہ اس کےمعاشی منتظمین کی قومی مفادات سےوابستگی اور اخلاص پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں جس کےپس منظر میں بین الاقوامی اداروں سےان کےروابط اور پاکستان سےباہر ان کےذاتی مفادات کی موجودگی بیان کی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد۲۰۰۷ء کےآخر میں شروع ہونےوالا توانائی کا ایسا ہولناک اور ختم نہ ہونےوالا بحران جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی،۲۰۱۰ء کےموسم برسات کا وہ سیلاب جو غیر معمولی نقصانات کا موجب بنا اور اس سےبھی اہم اندرونی اور بیرونی طور پر سیکیورٹی کی مسلسل خراب ہوتی صورتِ حال ہے۔ درحقیقت ان عوامل نےہمیں بحرانی کیفیت میں پہنچا دیا ہے۔
اقتصادی جائزے میں معیشت کےکچھ مثبت پہلو پیش کیےگئےہیں۔ جن میں۱۱۔۲۰۱۰ء کےمالی سال کےپہلےدس ماہ میں برآمدات میں%27.8اضافہ جو 20ارب ڈالر مالیت سےزائد ہوگئیں اور موجودہ مالی سال کےاختتام (30جون) تک جن کا تخمینہ24ارب ڈالر لگایا گیا ہے؛ 412ملین ڈالرکرنٹ اکاؤنٹ سرپَلس اگرچہ یہ پچھلےسال کے3.5ارب ڈالر کےمقابلہ میں کافی کم ہے؛ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ایک ارب ڈالر ماہانہ کےاوسط سےسال کےآخر تک متوقع 12ملین ڈالر کی ترسیل؛ اور فی کس ماہانہ آمدنی میں %0.7 کا معمولی اضافہ قابلِ ذکر ہیں۔
اقتصادی صورتحال کا یہی جائزہ (پاکستان اکنامک سروے۱۱۔۲۰۱۰ ) قومی معیشت کےمتعدد پریشان کن رحجانات کی نشاندہی کرتا ہے:
- جی ڈی پی کی حقیقی نمو (growth) کا اندازہ صرف %2.4 لگایا گیا ہےجب کہ اس کا ہدف %4.5 تھا۔ زرعی شعبہ کا نمو محض %1.2 کےساتھ اپنی نہایت کم سطح پر رہا جبکہ اس کےسالانہ نمو کا ہدف %3.8تھا۔ بڑے پیمانےکی صنعتی پیداوار (Large scale Manufacturing) کےشعبہ میںپچھلےسال کے%4.9 کےمقابلہ میں اس سال نموکا تناسب %1.7رہا۔ یہ محض خدمات کا شعبہ تھا جس میںگزشتہ سال کے%2.9 کےمقابلہ میں اس سال %4.1 بڑھوتری ہوئی اور جس نےمجموعی طور پر نمو کی رفتار میں کسی حد تک بہتری پیدا کرنےمیں مدد کی۔
- افراطِ زر بہت زیادہ رہا۔ صارف کےقیمتوں کےاشاریہ (consumer Price Index) میں مجموعی اضافہ جولائی ۲۰۱۰ء سےاپریل ۲۰۱۱ء کےعرصہ میں% 14.1ریکارڈ کیا گیا،پچھلےسال کےاسی عرصہ میں یہ %11.5 تھا۔ کھانےپینےکی اشیاء کےحوالہ سےافراط زر میں اور بھی زیادہ یعنی %18.4اضافہ ہُوا۔
- قومی بچت جو گزشتہ سال جی ڈی پی کا %15.4تھی، اس سال کم ہو کر %13.8رہ گئی۔ جس کےنتیجےمیں سرمایہ کاری میں نمایاں طور پر کمی ہوئی۔ سال 2006-07ء میں جی ڈی پی اورسرمایہ کاری کا تناسب %22.5تھا اور سال 2010-11ء میں یہ صرف %13.4رہ گیا۔
- بیرونی قرضوں میں3.6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور مارچ ۲۰۱۱ء تک ان کی مالیت 59.5ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
- براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری جو جولائی ۲۰۱۰ء سےاپریل ۲۰۱۱ء تک کےعرصہ میں ہوئی وہ 1.23ارب ڈالر ہے،یہ گزشتہ برس میں اسی مدت میں ہونےوالی غیر ملکی سرمایہ کاری (یعنی 1.72 ملین ڈالر) سے%29 کم ہے۔
- برآمدات کےساتھ ساتھ درآمدات بھی پچھلےسال کےمقابلےمیں%14.7 کم رہیں۔ درآمدات کی مالیت اس عرصہ میں32.7 ارب ڈالر رہی۔ پہلےدس ماہ میں تجارت کا خسارہ 12ارب ڈالر سےزیادہ رہا جو کہ پچھلےسال کےاسی عرصہ میں ہونےوالےخسارےکےتقریباً برابر ہے۔
- غیر ملکی زرِ مبادلہ کےذخائر اپریل ۲۰۱۱ء میں17.1ارب ڈالر تھے۔ بظاہر یہ پہلےکےمقابلہ میں حوصلہ افزا صورتحال ہےتاہم اس کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں سےمنسلک ہے۔
حالات کی اس تصویر کےبرعکس سال2011-2012کےبجٹ کےنمایاں خدوخال یہ ہیں:
بجٹ 2011-2012کی نمایاں خصوصیات
- کل اخراجات کی مالیت 2767ارب روپے، گزشتہ سال کےبجٹ سے%14.2 زائد۔
- مجموعی وسائل کی دستیابی کا تخمینہ 2436ارب روپےلگایا گیا ہے۔
- بیرونی وسائل کا تخمینہ 414 ارب روپےہے۔
- 2011-12میں اخراجات جاریہ کا حصّہ کل کا %83.7 تک نیچےآنےکا تخمینہ ہےجب کہ 2010-11کا نظر ثانی شدہ تخمینہ %89.7 تک رہا تھا۔
- پبلک سیکٹر کےترقیاتی پروگرام (PSDP)کا حجم 730ارب روپےہے،جس میں سے430ارب روپےصوبائی حصہ ہے۔
- دفاعی اخراجات کا تخمینہ 495 ارب روپےہےجبکہ اخراجات کی سب سےبڑی مدّیعنی قرضوں کی ادائیگی790ارب روپےہے۔
- بجٹ خسارہ کا تخمینہ جی ڈی پی کا %4 یعنی 850ارب روپےلگایا گیا ہے۔
بجٹ کا تجزیہ
پاکستان کی معیشت کی صورتِ حال کا تجزیہ اس امر کا متقاضی ہےکہ مختصر، اور طویل دورانیےکی حکمتِ عملیاں وضع کی جائیں، جسےاس بجٹ میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ساری مشق محض پچھلےسال کےمقابلےمیں نئےسال کےلیےبجٹ اہداف میں تبدیلی کی مشق معلوم ہوتی ہے۔ معاشی اشاریےبجٹ کےحقائق اوراعدادو شمار اور اقدامات کےاعلانات کو سامنےرکھا جائےتو قومی معیشت کےبحرانی کیفیت سےدوچار ہونےکا احساس نظر نہیں اتا نتیجےکےطور پر یہ بجٹ بحران سےنمٹنےکےلیےکوئی جامع منصوبہ اور حکمتِ عملی پیش نہیں کر تا چنانچہ بجٹ کا سب سےافسوس ناک پہلو ’’بصیرت (وژن) کا فقدان‘‘ ہے۔
پاکستانی معیشت کو درپیش سب سےبڑا مسئلہ اسٹیگ فلیشن (Stagflation) ہے۔ (یعنی جہاں افراطِ زر بہت زیادہ اور شرحِ نمو بہت کم ہو۔) شرحِ نمو تقریباً رُک گئی ہے، حتیٰ کہ %2.4 شرحِ نمو بھی غیر حقیقی اور مبالغہ پر مبنی ہےکیونکہ معیشت کےذیلی شعبوں میں ایسی نمو نظر نہیں اتی جو مجموعی نمو کی اس شرح سےمطابقت رکھتی ہو۔ افراطِ زر بہت بڑھا ہُوا ہےاور یقینا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے، تاہم اس حقیقت کو تسلیم کیا جاناچاہیئےکہ شرحِ نمو میں کمی اس سےبھی اہم مسئلہ ہے۔ جب تک نمو میں دوبارہ اضافہ شروع نہ ہو، پاکستان کی معیشت بحران سےنہیں نکل سکتی۔ مالیتی پالیسی کےحوالہ سے(Monetary Policy Statements) میں Discount Rate مسلسل بہت زیادہ،حتیٰ کہ %14 تک، رکھنا افراطِ زر کو قابو کرنےمیں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ پاکستان میں افراطِ زر طلب میں اضافےکی وجہ سےنہیں بلکہ رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سےہےجسےحل کرنا بہت اہم ہے۔
اسٹریٹیجک اہمیت کا ایک اور مسئلہ بجٹ کا نہایت بلند سطح کا خسارہ اور اس سےنمٹنےکا آسان راستہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حصول ہے۔ اس حوالہ سےیہ بات سمجھ لی جانی چاہیئےکہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر مبنی حکمتِ عملی پاکستانی معیشت کی ضروریات سےمطابقت نہیں رکھتی۔
حکمتِ عملی میں جس تبدیلی کی ضرورت تھی اور جو نظر نہیں اتی، وہ ہے: نمو میں قابلِ ذکر اضافہ کرنا اور خسارہ پر قابو پانا۔ ہمیں ایک جامع وژن کی ضرورت ہےکہ ہمارےنمو کےاہداف کیا ہونےچاہییں اور پالیسی کےاقدامی معیارات (Parameters) کیا ہونےچاہییں۔ جیسےاثاثوں کی تشکیل اور قومی سطح پر بچت کرنےکی حوصلہ افزائی کےاقدامات اور ان اہداف کےحصول کےلیےوسائل کا تعین۔ یہ تمام اُمور ایک دوسرےسےمنسلک اور متعلق ہیں اور اگر ان تعلقات کو قائم نہ کیا گیا تو پھر معیشت کی بہتری کےلیےآگےبڑھنا ایک خواب ہی رہےگا۔
دوسری بڑی کمزوری متوقع اخراجات اور آمدنی کا غیر حقیقت پسندانہ تخمینہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ آمدنی اور اخراجات کی ایک مساوات بنانےپر ساری توجہ صرف کر دی گئی ہےاور اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا گیا کہ زمینی صورتِ حال کیا ہے۔ اس پر مستزادوہ ہمیشہ کا سوالیہ نشان ہےکہ سرکاری اعدادو شمار کس حد تک قابلِ اعتماد ہیں، جس نےمعاشی صورت حال کےزیادہ دگرگوں ہونےکےخطرہ کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ مزید برآں بجٹ دستاویز میں طباعت اور کمپیوٹنگ کی شدید غلطیاں ہیں جو اس دستاویز کی تیاری میں سنجیدگی کےفقدان اور حکومت اور اس کی مشینری پر اعتماد کی کمی کی مظہر ہیں۔
تیسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہےکہ وسائل کو تحرک اور بچتوں کےلیےترغیبات دیےبغیر موجودہ بحران سےنکلنےکا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جہاں تک وسائل کےتحرک کی بات ہے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو نےمحصولات جمع کرنےکا ہدف 1580 ارب روپےسےبڑھا کر 1955ارب روپےکر دیا ہے۔ لیکن اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ایف بی آر اس پوزیشن میں ہےکہ اس ہدف کو حقیقی معنوں میں لےسکےاور کیا وہ ایسی بنیاد رکھتی ہےجو محصولات جمع کرنےکی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دُور کر سکے؟ مالی سال 2010-11ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا اصل ہدف 1600ارب روپےتھا جسےکم کیا گیا اور مئی 2011ء کےجمع شدہ محصولات سےاندازہ ہوتا ہےکہ جون 2011ء میں بھی محدود کردہ ہدف حاصل نہ ہو سکےگا اِلاّ یہ کہ محصولات جمع کرنےکےنظام میں کوئی غیر معمولی اقدامات کیےجائیں۔ یہ حقیقی مسئلہ ہےاور پورے بجٹ میں اس مسئلہ پر توجہ اور کسی معاشی پالیسی اقدام کا نشان نہیں ملتا۔ براہِ راست ٹیکس کےتناسب کو بڑھائےبغیر اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ آمدنی (Income) ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور دولت(Wealth) ٹیکس اس مسئلہ کو حل کرنےکےاہم ذرائع ہیں۔
پورےملک میں،تمام اشیاء پر بالکل یکساں شرح کےساتھ بالواسطہ ٹیکس خصوصاً جنرل سیلز ٹیکس مناسب حکمتِ عملی نہیں ہے۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہےاور اسےمساوات اور ترقی دونوںپہلوؤں سےدیکھا جانا چاہیئے۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں جی ایس ٹی کےلیےدو یا تین درجات (tiers/slabs) رکھےجاتےہیں۔ پاکستان میں بنیادی ضرورت کی اشیاء پر جی ایس ٹی کی کم شرح کو خصوصاً زیرِ غور لایا جائے۔ بجٹ میں دعویٰ کیا گیا ہےکہ اس کی شرح میں% 1کمی کی گئی ہےجبکہ حقیقی صورتِ حال اس کےبرعکس ہےاور گزشتہ سال اکتوبر میں اس میں%1اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیرِ خزانہ کہتےہیں کہ ایسے7لاکھ افراد کی شناخت کر لی گئی ہےجنہیں لازماً ٹیکس ادا کرنا چاہیئےاور ان میں سے58,000کو نوٹس جاری کر دیےگئےہیں۔ اگر یہ لوگ ’’نوٹس‘‘ جاری کیےجانےکی وجہ سےٹیکس ادا کرنےوالےہوتےتو بہت پہلےٹیکس ادا کر چکےہوتے۔ اس اہم عنصر کو محسوس کیا جانا چاہیئےکہ حکومت اعتماد اور ساکھ کےفقدان کا شکار ہے۔ لوگوں میں اعتماد کی یہ کیفیت بہتر طرزِ حکمرانی،شفافیت اور اعلیٰ ترین سطح پر قانون کی حکمرانی قائم کرنےکےنتیجےمیں پیدا کی جا سکتی ہے۔ اور ایسا ہو جائےتو لوگوں میںٹیکس دینےکار حجان خود بخود پیدا ہو سکتا ہے۔
جس طرح موجودہ حکومت حالیہ مالیاتی سالوں میں محصولات کی کمی پورا کرنےکےلیےاقدامات اٹھاتی رہی ہےوہ کسی مذاق سےکم نہیں مثلاً پیٹرولیم سیکٹرپربھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ 2009-10کےمالیاتی سال میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نےصرف پیٹرولیم سیکٹر کی مصنوعات پر 351بلین روپےکےٹیکس وصول کیے۔ علیحدہ علیحدہ تفصیل کچھ یوں بنتی ہے۔
کسٹم ڈیوٹی: 2.5بلین روپے
درآمداتی مرحلےپر سیل ٹیکس: 100بلین روپے
اندرون ملک فروخت پر سیل ٹیکس: 114بلین روپے
پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی: 112بلین روپے
سی بی آر نے2010-11کےمالی سال میں پہلےچھ ماہ کےدوران پیٹرولیم کی مصنوعات پر 163بلین روپےکےٹیکس پہلےہی وصول کر رکھےہیں۔ اسی بھاری ٹیکس وصولی میں کم ہو جانےوالےایک قطرے کو بھی نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف حکومت عوام کو باور کروانےپر تلی رہتی ہےکہ پیٹرولیم مصنوعات کی بھاری قیمتوں کا سبب بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی بلند ہوتی ہوئی قیمتیں ہیں۔
مستقل خسارہ اور اسےپورا کرنےکا عمل ایک الگ ہی کہانی ہےخسارےکو بیرونی اور اندرونی قرضوں کےذریعےپورا کرنےکی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اسی کےنتیجہ میں قرضوں کا بوجھ پہلےہی خطرناک حدوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے۔ بڑھتا ہوا یہ خسارہ جو کہ مالیاتی سال کےدوران پہلےہی بہت زیادہ بڑھتا نظر آ رہا ہےیہ کہانی بھی سنا رہا ہےکہ حکومت 2011-2012کےمالی سال میں بھی اسےپورا کرنےکےلیےمزید قرضوں پر ہی انحصار کرےگی۔ قرض کی ادائیگی کےلیےخرچ ہونےوالے786ارب روپےدرحقیقت صرف سود کی ادائیگی ہی پر خرچ ہو رہےہیں اور قرض کی اصل رقم پر اس سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک اور اہم بات یہ ہےکہ اگلےسال فروری میںIMF سےلیےگئےقرضوں کی ادا ہونےوالی قسط کی فراہمی کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے۔
بجٹ کےایک عمومی جائزےکےبعد ہم زراعت صنعت، توانائی اور پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کےچار اہم عنوانات پراپنی توجہ مرکوز کرتےہیں۔
جہاں تک پیداوار کا تعلق ہے، زراعت ہمیشہ سےایک اہم شعبہ رہا ہے۔ یہ شعبہ مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ زراعت GDP کا 22 فی صد حصہ ہےاور کل افرادی قوت میں47 فی صد روزگار فراہم کرتا ہے۔ 2010-11کےدوران صرف گندم کی برآمد سےتقریباً 400 ملین ڈالر کمائےگئے۔ پاکستان کی اقتصادیات کا تقاضا یہ ہےکہ ملک کا بجٹ ایسا ہونا چاہیئےجو زراعت وصنعت کاری میں سرمایہ کاری کر سکے۔ اس طرح کی پالیسی سےپاکستان کی صنعت کو موقع ملےگا کہ وہ زراعت کی قوت بن سکےاور اس کےساتھ یہ موقع فراہم کر سکےکہ بےانتہا معدنی ذرائع کو ایسےمواد میں تبدیل کر سکےجو ملک میں ایک زرعی انقلاب کا پیش خیمہ بن جائے۔ اس کےنتیجےمیں لاکھوں افراد کےلیےروزگار کےمواقع پیدا ہوںگےاور قومی دولت میں اضافہ بھی ہو گا۔
یادکیا جائے تو موجودہ حکومت نےمالی سال 2008-09 کےاپنےپہلےبجٹ میں جس زراعتی انقلاب کی بات کی تھی اسےبغیر کسی وجہ کےختم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کےبرعکس جن عوامل کا اعلان کیا گیا ہےوہ پیداوار کی لاگت کو بڑھا دیںگے۔ اسی سال مارچ میں زرعی اشیاء پر RGST لاگو کیا گیا تھا۔ کھا د اور کیٹرے مار دواؤں سمیت زرعی اشیاء پر GST کےمحصول نےفی ایکٹر پیداوار کی لاگت پر 4000 روپےکا اضافہ کر دیا ہے۔ زرعی اشیاء پر GST لاگو کرنےکےنتیجےمیں ان کےاستعمال میں10سے15فی صد کمی واقع ہو جائےگی جس کےنتیجےمیں فی ایکٹر پیداوار میں کم ازکم10فی صد کمی ہو جائےگی۔دوسری جانب GST لاگو کرنےکےطریقہ کار پر بھی بہت سےعملی سوالات موجود ہیں۔ یہ اچھی بات ہےکہ سیلاب سےمتاثرہ علاقوں کےلئے15بلین روپےکی رقم مختص کی گئی ہےلیکن اصل سوال تو یہ ہےکہ اس رقم کو استعمال کس طریقےسےکیا جائےگا۔ اسی طرح بھاشا ڈیم کے18بلین روپےمختص کیےگئےہیں جسےکا لا باغ ڈیم کےبرعکس تعمیرکرنا بہت مشکل ہے۔ زرعی شعبےکےنمائندےیہ دعویٰ کرتےہیں کہ انہوں نےپچھلی د و دہائیوں سےزرعی شعبےکےساتھ ہمدردی رکھنےوالا ایسا بجٹ کبھی نہیں دیکھا۔
زراعت کےساتھ صنعتی سیکٹر بھی قومی اقتصادیات کا ایک اہم عنصر ہےچنانچہ اس شعبہ کےلیےاقدامات مناسب اورپائیدار ترقی کےنکتۂ نظر سےاگلا بڑا ہدف ہونا چاہیے۔بجٹ 2011-12میں صنعت کےشعبےکےحوالےسےکچھ اچھےاقدامات بھی سامنےآئےہیں مثلاً یہ بجٹ Equily financing کی حوصلہ افزائی کرتا ہےاور یکم جولائی 2011ء کےبعد قائم ہونےوالی صنعتوں کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ پہلےسےقائم شدہ کمپنیاں بھی اس سہولت سےفائدہ اٹھا سکتی ہیں بشرطیکہ وہ بیلنسنگ، ماڈر نائزیشن اور ری پلیمنٹ(BMR) کےلیےیکم جولائی2011 یا اس کےبعد 100فی صد سرمایہ کاری خود کر رہی ہوں۔ سیلز ٹیکس کےریفنڈ کو خود کار بنانےکےبعد 46ارب روپےکےریفنڈ مل رہےہیں۔
تاہم بجٹ میں ٹیکسٹائل آلاتِ جراحی، چمٹرےکی مصنوعات، کھیل کےسامان، قالین سازی اور ترقی پذیر صنعتوں مثلاً ماربل، جوہرات، جیولری اور فرنیچر سےمتعلق ترغیبات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بجلی اور توانائی کی پیدوار پر دی جانےوالی حکومتی رعایت مزید 30 فیصد کم کر دینےسےافراطِ زر کی نئی لہر پیدا ہو گی اور صنعتی سرگرمیوں کو مفلوج کر دےگی۔ بینک سےکیش نکلوانےپر لگےٹیکس کی شرح 0.3 فیصد سےکم کر کے0.2 فیصد کر دینےکی تجویز ہےتاکہ ٹیکس ادا کرنےوالےافراد کےلیئےنقد رقم کی دستیابی کی صورتِ حال کو بہتر کیا جا سکے۔
توانائی کا بحران ،با لخصوص بجلی کےشعبےکو جو بحران درپیش ہےیہ اسی نکتۂ نظر سےانتہائی بڑا اور اہم موضوع ہےکہ اس کی وجہ سےمقامی استعمال کنندگان کی ترقی اور بہتری داؤ پر لگی ہوئی ہےاور یہ لوگ انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال سےدو چار ہیں بجلی کےبحران کی وجہ سےتوانائی کا شعبہ بری طرح مفلوج ہو چکا ہےجسےسب سےزیادہ اہمیت دےکر حل کیا جانا چاہیےتھا تاکہ چھوٹے،درمیانےاور بڑےکاروباری افراد اور صنعتکاروں کےساتھ ساتھ عام آدمی کی مدد کی جا سکتی ۔ بجلی کی کمی نےپچھلےچند سالوں میں صنعت و حرفت ،مشینی اور زرعی پیدوار کو بڑی بری طرح زک پہنچائی ہے۔ توانائی کےاسی بڑھتےہوئےبحران میں ضرورت اس بات کی تھی کہ بجٹ میں اس شعبےپر خاص توجہ دی جاتی لیکن بجٹ کی دستاویزات اور اعلانات اس سلسلےمیں انتہائی مایوس کن صورت حال پیش کر رہےہیں۔
محصولات ہی میں انتہائی معمولی تبدیلیوں کےساتھ صرف یہ کہ دیناکہہ اب NEPRA اس سارےسلسلےکو دیکھےگا اس انتہائی اہم شعبےکےبارےمیںپالیسی سازوں کی سنجیدگی کو آشکار کر رہا ہے۔ حقیقت یہی ہےکہ جہاں تک توانائی کےبحران کا تعلق ہےاس دورِ حکومت میں سنجیدہ اقدامات اٹھانےکےبجائےبہت سا وقت ضائع کر دیا گیا ہے۔انہوں نےقلیل وقتی اور انتہائی مہنگےحل پر ہی ساری توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ شعبہ اُس وقت تک بحران سےنہیں نکل سکتا جب تک قرضوں کےانتہائی اہم موضوع یعنی Circular Debt کو صحیح معنوں میں حل نہیں کیا جاتا۔ اور بجٹ میں اس طرح کےکسی اقدام کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ اسی طرح توانائی کےمتبادل ذرائع کی تلاش کےسلسلےمیں بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
بجلی کےشعبےکےعلاوہ توانائی کےمجموعی شعبےبالخصوص گیس اورتیل کےذخائر کی دریافت اور ان کی ترقی کےحوالہ سےبھی کوئی ترغیبات موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلےمیں ایک بہت بڑی الجھن 18ویں ترمیم کےپاس ہونےسےپیدا ہو گئی ہےجسےفوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ اس کےمطابق اب تیل اور گیس کےذخائر کی تلاش پالیسی سےلےکر لائسنس جاری ہونےتک ایک صوبائی معاملہ ہےجبکہ پاکستان کےعلاوہ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے۔ معاملات میں پائیداری اور تواتر کےساتھ ساتھ اب صوبائی حکومتوں کی استعداد کاربھی ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔جس نےبیرونی سرمایہ کاروں کو ان ذخائر کی دریافت پر رحم کھانےکےسلسلےمیں بےدلی کا شکار کر دیا ہے۔
بجٹ میں2011-12کےلیےپبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام(PSDP) کےلیے730بلین روپےکی رقم مختص کرنےکی تجویز ہے۔ اس میں وفاقی حصہ 300 بلین روپےاورصوبوں کا حصہ 420 بلین روپےہے۔ تاہم PSDP کےحوالہ سےاہم نکتہ یہ ہےکہ اس کا کتنا حصہ ٹھوس اثاثہ جات حاصل کرنےپر لگایا جائےگا۔ اسی کےساتھ PSDP کا کتنا حصہ تبدیلی کےعمل میں استعمال ہو گا اور کتنا سرمائےکی تشکیل ہیں۔
کیونکہ PSDP کی تیاری میں دو ادارےوزات خزانہ اور پلاننگ کمیشن ذمہ دار ہوتےہیں اورPSDP کی رقوم کی درجہ بندی (Clssification) کےلیےمختلف طریقےاستعمال کرتےہیںچنانچہ ایک جامع تجزیہ کی فراہمی مشکل عمل بن جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنا بھی بہت ضروری ہےکہ کبھی بھی رقوم اور وصولی کی کمی کی صورت میں یہ PSDP ہی ہوتا ہےجس کو اخراجات پر کٹوتی کا سامنا کرنا پڑتا ہےکیونکہ جاری اخراجات پر کٹوتی نہیں کی جاتی۔
بجٹ کا تجزیہ کرتےہوئےایک بات ضرور محل نظر رکھی جاتی ہےکہ اس میں غربت کی کمی اور روزگار کی فراہمی کےلیےکیا طریقےتجویز کیےگئےہیں۔ یہ بجٹ اس سلسلےمیں بھی مایوس کن صورت حال پیش کرتا ہے۔ سب سےاہم شعبوں زراعت اور صنعت پر توجہ مرکوز کیےبغیر یہ کس طرح ممکن ہےکہ غربت میں کمی کی جا سکےاور لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ تنخواہ اور پنشن میں اضافےاور بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کےذریعےکیےجانےوالےدستگیری طریقےعارضی حل اور سیاسی مقاصد لیےہوئےہوتےہیں۔
پاکستان کےمعاشی اور ریاستی معاملات میں اس وقت کی سیاسی و سلامتی صورتحال بھی انتہائی اہم عنصر ہے بالخصوص 9/11اور افغانستان پر امریکہ کی چڑھائی کےبعد سےپاکستان کی معیشت اور بجٹ کا تجزیہ کرتےہوئےانتہائی اہم بات سیاسی و سلامتی کی صورتحال کا معیشت کےساتھ تعلق سمجھنا بھی ہے۔ خاص طور پر ’’دہشت گردی کےخلاف جنگ‘‘ اور اس سےہونےوالےاخراجات اور نقصانات کی اصل صورت حال۔ اگرچہ یہ سوال ہمیشہ سےاٹھایا جاتا رہا ہےکہ حکومت کےبتائےہوئےاعداد و شمار کس حد تک قابل اعتبار ہیں اوردہشت گردی کےخلاف جنگ کےنتیجےمیں2001ء سےملک کی اقتصادیات پرپڑنےوالےاثرات کا حقیقی تعین نہیں ہو پایا۔اس تناظر میں حقیقی نقصانات حکومت کےفراہم کردہ 67.9بلین سےکہیں زیادہ ہو سکتےہیں۔لیکن اگر ان اعداد و شمار ہی کو درست قرار دیا جائےتو اس صورتحال کا فوری تقاضا اپنےآپ کو اس جنگ سےعلیحدہ کرنا ہے۔
بدقسمتی سےایسےکسی بھی عمل کی نشاندہی نہیں ہو رہی کہ Wotسےنپٹنےکی کوئی منصوبہ بندی یا طریقہ کار طےکیا جا رہا ہو۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہےکہ جب تک ملک کو ’’دہشت گردی کےخلاف جنگ‘‘سےالگ نہیں کیا جائےگا پاکستانی معیشت مشکل حالات سےنہیں نکالی جا سکتی۔
جہاں تک دفاعی بجٹ کا تعلق ہے،2767 ارب روپےکےبجٹ میں دفاع کےلیےمختص رقم 495 ارب روپےیعنی 17.9فی صد ہے۔ مالی سال2010-11 کےمقابلےمیں یہ 11.4 فی صد زیادہ ہے۔ اس فریم ورک کو دیکھتےہوئےکہا جا سکتا ہےکہ دفاع کےلیےرکھی گئی رقم ماضی کےجاری وسیع تر بجٹ فریم ورک کا ہی تسلسل ہے۔ وسائل کی عدم دستیابی کو دلیل بناتےہوئے،حکومت نےدفاعی انتظامیہ کی ابتدائی درخواست کو قبول نہ کیا جس کےمطابق دفاعی بجٹ میںگزشتہ سال کےمقابلےمیں18فی صد اضافہ کرنےیعنی اسے524ارب روپےتک بڑھا دینےکےلیےکہا گیا تھا۔ اس طرح دفاعی بجٹ رواں سال کےنظر ثانی شدہ دفاعی اخراجات کےقریب ہو جاتا ۔2010-11میں دفاعی اخراجات 586ارب روپےہوئےیعنی کل بجٹ کا تقریباً 23فی صد۔ اس میں اگر پنشن کے71.9ارب روپےکےاخراجات کو شامل کیا جائےتو یہ مجموعی طور پر 658ارب روپےبن جاتےہیں،یعنی کل بجٹ کا تقریباً 25.6 فیصد اسی طرح اگر ہم اگلےسال (2011-12) کےدفاعی بجٹ میں وہ 150ارب روپےشامل کر یں جو حکومت نےپنشن وغیرہ کےلیےمختص کیےہیں، اور جس میں سےنصف آرمڈفورسز ڈیویلپمنٹ پروگرام سےلیا جانا ہےاور 73.2 ارب روپےملٹری پنشن کےلیےسول کھاتےسےادا کیےجانےہیں،تب مجموعی مختص رقم 718ارب روپےبن جاتی ہےیعنی کل بجٹ کا 26فی صد۔
تاہم دفاعی بجٹ کو چند دوسرےعنوانات کےتحت فنڈ کرنےکےحوالہ سےجو تنقید کی جاتی ہے وہ درست نہیں یہ کوئی غیر معمولی مشق نہیں اور دنیا کےکئی ممالک میں ایسا ہوتا ہے۔ بہت سارےممالک بشمول بھارت اور چین بھی اپنےبجٹ کو اسی طرح بناتےاور ظاہر کرتےہیں۔
بجٹ میں دفاع کےلیےرکھی گئی کل رقم کی تقسیم کچھ اس طرح سےہے۔ 41 فی صد یعنی 206.4 ارب روپےعملی اخراجات ہیں،23فی صد (117.5ارب) اثاثہ جات کےلیےاور 8.6 فی صد (42.6ارب) سول کاموں کےلیے۔ تینوں مسلح افواج کا حصہ ان کی افرادی قوت،اور اس کےساتھ ہتھیاروں اور دیگر سازوسامان کی ضروریات کو سامنےرکھتےہوئےطےکیا جاتا ہے۔ موجودہ شرح پر دفاعی بجٹ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2.35فی صد ہے،جوملک کو درپیش سلامتی کےغیر معمولی خطرات اور خطےکےدیگر ممالک کےدفاعی اخراجات کو سامنےرکھتےہوئےکچھ زیادہ نہیں ہے*
اختتامیہ
بجٹ کا یہ جائزہ ظاہر کرتا ہےکہ اس اہم قومی دستاویز میں کئی خسارےنمایاں ہیں،یعنی بصیرت اور حکمت عملی کا فقدان اور حکومت کا ناقابل اعتماد ہونا۔ جبکہ ان تین خساروں کےساتھ جو سرپلس اس میں نظر آتےہیں ان میں ناقابل حصول محصولات،خسارہ جات اور دیگر معاشی اشاریوں کےحوالےسےحد درجہ کی خوش فہمی،اس کےساتھ ساتھ ناقابل عمل وعدوں کا سرپلس بھی اس بجٹ کا نمایاں حصہ ہے، بجٹ 2011-12 پاکستانی معیشت کو درپیش غیر معمولی چیلنجز سےنمٹنےکےلیےکوئی حکمت عملی سامنےنہیں لایا۔ یہ صرف ایک ایسی مشق نظر آتی ہےجس میں امدنی اور اخراجات کی ایک مساوات بنانےکی کوشش کی گئی ہے۔ نمو اورترقی کےلیےکوئی مناسب محرکات بجٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ اہم شعبہ جات کو نظر اندا زکیا گیا ہےاور بجٹ کےاہداف بڑی حد تک ناقابل حصول ہیں۔
* بھارت نےسال 2011-12کےلیےدفاعی بجٹ میں11فی صد اضافہ کر کےاسے34ارب ڈالر کی سطح پر پہنچا دیا ہےیعنی پاکستان کےدفاعی بجٹ سےتقریباً چھےگنازیادہ۔
نوعیت: رپورٹ
جواب دیں