ڈبلیو ٹی او- موجودہ صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے "ڈبلیو ٹی او- موجودہ صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل” کے عنوان سے 28 اپریل 2011ء کو ایوان صنعت و تجارت راولپنڈی کے تعاون سے ان کے دفتر میں ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ جناب فصیح الدین، سابق چیف اکانو مسٹ حکومت پاکستان اور آئی پی ایس کی قومی مجلس علمی کے رکن، اس مذاکرے کے اہم مقرر تھے۔
چیمبر کی WTO کمیٹی کے چیئرمین جناب امان اللہ خان نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کثیرالجہتی تجارتی نظام کے ارتقاء، WTO کے تعارف، مقاصد اور سرگرمیوں کے حوالے سے مختصر جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان GATT کا ستمبر 1947ء سے بانی رکن ہے، جو کہ WTO کا ہی پیشرو ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان آغاز ہی سے کثیر الجہتی اور شفاف تجارتی نظام کے ساتھ ہے۔
کلیدی مقرر جناب فصیح الدین نے کہا کہ WTO کے فیصلے اتفاق رائے سے ہونے چاہیے تھے، جو کہ مذاکرات کے اختتامی مرحلے پر پیش آنے والی مشکلات کا اہم سبب تھا ، کیوں کہ 153 رکن ممالک کا مختلف تجارتی مفادات کے پیش نظر کسی بات پر اتفاق بہت مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ جاری مذاکرات میں جو ، "دوحہ راؤنڈ” کے نام سے مشہور ہیں، اصل وجہ نزاع زرعی زر تلافی ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک بطور خاص امریکہ اپنے زرعی شعبے کو دے رہا ہے۔اگرچہ امریکی آبادی کا صرف 4 فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے پھر بھی امریکہ میں زرعی لابی بہت مضبوط ہے۔
یہ واضح کرتے ہوئے کہ چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ WTO کے اہم کھلاڑی بن گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں مذاکرت سیاسی رخ اختیار کر گئے ہیں۔
ممتاز ماہر اقتصادیات کی رائے تھی کہ دوحہ راؤنڈ کے ابتدائی کامیاب نتائج ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے ممالک کے یکساں مفاد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "قربانی کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا”۔ WTO کے ڈائریکٹر جنرل کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دوحہ راؤنڈ کا کامیاب اختتام 130 بلین ڈالر یا اس سے زائد فائدے پر منتج ہو سکتا ہے۔
آئی پی ایس کے لیڈ کو آرڈی نیٹر عرفان شہزاد نے اس بات پر زور دیا کہ WTOاور اس کے اثرات تمام متعلقہ طبقات کی توجہ کا مرکز رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ WTO سے متعلق مسائل پر مباحثے میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اس کے اثرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے کہا کہ مواقع سے استفادہ کرنے اور چیلنجز میں تخفیف لانے کے لیے تمام متعلقہ طبقات کو اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کا خیال رکھنا ہوگا جو WTO جیسی تنظیموں کے بننے کے بعد سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارا اپنی دنیا میں مگن رہنا مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا”۔ انہوں نے ایوان صنعت و تجارت کی توجہ اس طرح کے مسائل پر مزید ٹھوس کام کرنے کی جانب مرکوز کروائی۔
نوعیت: روداد مجلس مذاکرہ
تاریخ: 28 اپریل 2011ء
جواب دیں