‘اسرائیل-حماس جنگ بندی اور متعلقہ پیش رفت’
حماس-اسرائیل جنگ بندی معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے کامیابی اور ناکامی کا ایک پیچیدہ مرکب ہے
غزہ جنگ بندی نے اسرائیل اور حماس کے بیچ جاری جھگڑے کو روک دیا ہے، جو کہ دونوں اطراف کے لیے اپنی اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ایک پیچیدہ مرکّب کے ساتھ تنازعے کا ایک اہم موڑ ہے۔ اگرچہ جنگ بندی کے اپنے اہم چیلنج موجود ہیں ، لیکن اس نے عالمی بیانیے اور عوامی گفتگو کو نئی شکل دی ہے، جس سے فلسطینیوں کے لیے تعمیر نو اور طویل مدتی قراردادوں پر زور دینے کے لیے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
اس بات کا مشاہدہ 17 جنوری 2025 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں جونیئر ریسرچ آفیسر محمد ولید کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی شرائط اور تفصیلات کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن کے بعد ہونے والی گفتگو کے دوران کیا گیا۔
اس تین مرحلوں میں تشکیل دیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کا مقصد غزہ میں بڑھتی ہوئی دشمنی کو کم کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی اسیران کی رہائی اور لڑائی میں ابتدائی وقفہ شامل ہے۔ دوسرے مرحلے میں جنگ بندی میں توسیع کی جائے گی، جو ممکنہ طور پر غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء کا باعث بنے گا، جبکہ تیسرے مرحلے کا مقصد تعمیر نو کی طویل مدتی کوششوں اور ایک پائیدار سیاسی حل کے عمل کو شروع کرنا ہے۔
تاہم اس میں پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد حملوں کو دوبارہ شروع کرنے کے خلاف تحریری ضمانت فراہم کرنے سے اسرائیل کے انکار کے سخت موقف جیسے چیلنجز باقی ہیں۔ اس سے امن کی پائیداری اور تنازعے کے دوبارہ سر اٹھانے کے امکانات کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ مزید برآں، جنگ بندی کے بعد غزہ میں سیاسی اور سلامتی کا منظر نامہ بدستور غیر یقینی ہے، جس میں گورننس، تعمیر نو اور استحکام سے متعلق خدشات شامل ہیں۔
بحث میں بتایا گیا کہ جنگ بندی کے حماس اور اسرائیل دونوں کے لیے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔ حماس نے بروقت اپنی بھرتی کو بڑھا کر اور کلیدی علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھ کر اپنی لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کی طویل کشمکش کو برداشت کرنے کی صلاحیت نے اس کی اپنے حمایتیوں کے درمیان فلسطینی مزاحمت کے علامت کے طور پر پہچان قائم کی ہے ۔ تاہم، غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی، شہری ہلاکتیں، اور جاری انسانی بحران اب بھی نمایاں دھچکے ہیں۔
دوسری طرف، اگرچہ اسرائیل اپنی فوجی برتری کو دوبارہ قائم نہیں کر سکا ، لیکن اس نے امریکہ کی مضبوط حمایت برقرار رکھی۔ تنازعہ نے اسرائیل میں داخلی سیاسی تقسیم اور حماس کی آپریشنل صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکامی کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ مزید برآں، عالمی رائے عامہ تیزی سے بدل گئی ہے، اسرائیل کے اقدامات اور نظریے پر وسیع پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
اپنے اختتامی تبصرےمیں خالد رحمٰن نے تنازعات پر ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے مضمرات پر روشنی ڈالی، خاص طور پر امریکہ کے تناظر میں، جس نے پہلے عرب ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ابراہیم معاہدے کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ امریکہ، جو اسرائیل کا روایتی اتحادی رہا ہے، نئی قیادت کے تحت، خطے میں براہ راست ثالثی پراندرونی سیاست اور کانگریس کے اثر و رسوخ کو ترجیح دیتے ہوئے اسی طرح کی حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔
مزید برآں، اسرائیل کے اندر بائیں اور دائیں دھڑوں کے درمیان اندرونی تقسیم اور عرب ریاستوں کی احتیاط نے ایک نازک علاقائی توازن کو جنم دیا ہے ۔ دریں اثنا اس حالیہ پیش رفت نے قرارداد کی تشکیل میں اقوام متحدہ کے کم ترین کردار کو ظاہر کیا، جس سے پائیدار استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی فریم ورک کی کمی پر تشویش پائی جاتی ہے۔
انہوں نے امریکی عالمی اثر و رسوخ میں کمی اور چین کے محتاط، حکمت عملی والے موقف کے حوالے سے عالمی طاقت کی تبدیلی پر بھی تبادلہ خیال کیا جسے "خاموشی میں طاقت” کے نقطہ نظر کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ پیش رفت اجتماعی طور پر جنگ بندی اور اس کے علاقائی اور عالمی استحکام کے مضمرات سے متعلق وسیع تر جغرافیائی سیاسی گفتگو کو تشکیل دیتی ہے۔
جواب دیں