موجودہ جغرافیائی و تزویراتی حرکیات: ایران کا نقطۂ نظر

Current-Geo-Strategic-Dynamics-thumb

موجودہ جغرافیائی و تزویراتی حرکیات: ایران کا نقطۂ نظر

 Current-Geo-Strategic-Dynamics

چاہ بہار اور گوادر میں مقابلہ کی بجائے تعاون کی فِضا دونوں ممالک کے لیے سود مند ثابت ہو گی: کاظم سجاد پور

ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور انہیں مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے ایرانی تھنک ٹینک آئی پی آئی ایس (Institute of Political and International Studies) کے صدرڈاکٹر سیدکاظم سجاد پور نے معیشت اور سفارتکاری کو دو ایسے اہم شعبہ جات قرار دیا جن میں تعاون پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔

سجاد پور نے ایران اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات کو علاقائی استحکام کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سیاست تیزی سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور قوت و طاقت کا محور یک قطبی چودھراہٹ سے کثیرقطبی حاکمیت کی سمت تبدیل ہو  رہا ہے۔ مقرر کے نقطۂ نظر سے یہ صورتِ حال علاقائی کرداروں کے لیے زیادہ مواقع مہیا کر رہی ہے اس لیے ہمیں اب اپنے علاقائی منظرنامے کو اچھی شکل دینے کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔

اس موقع پر جن دیگر شرکاء نے گفتگو میں حصہ لیا ان میں صدر مجلس ڈاکٹر اظہر احمد ، چیئرمین شعبہ سماجی علوم، بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد، سعید احمد قریشی، سابق ڈپٹی چیئرمین، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، سفارت کار (ریٹائرڈ) تجمل الطاف حسین، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالدرحمٰن، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سیدنذیر، ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال اور پروفیسر شہزاد اقبال شام شامل تھے۔

معزز مہمان ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو استحکام دینے کے ساتھ ساتھ بین الافراد رابطے قائم کرنے اور انہیں فروغ دینے کے خواہشمند بھی تھے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئی پی ایس اور آئی پی آئی ایس جیسے تھنک ٹینک عملی اقدامات کے ذریعے دونوں ہمسائیہ ممالک کے درمیان اعتمادسازی کی فضا کو تقویت دے کر اور متنازع امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرکے ایک صحتمند فضا پیدا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اسپیکر نے ایران کی اندرونی صورتِ حال پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک پر ایک نفسیاتی جنگ مسلط کی جا رہی ہے اور اقتصادی پابندیاں اور سیاسی دباؤ محض وہ ہتھکنڈے ہیں جن کا مقصد ملک میں افراتفری پھیلانا ہے۔ تاہم وہ پرامید تھے کہ ملک ایک ایجنڈے کے تحت پیدا کی گئی اس افراتفری سے نکلنے کا راستہ تلاش کرلے گا اور اس عمل کے دوران نہ صرف اس نفسیاتی جنگ کا توڑ کرے گا بلکہ اس منفی پروپیگنڈے کی تصحیح بھی کر پائے گا جو ایران کے خلاف پھیلایا جا رہا ہے۔

جنوبی ایشیا میں امریکی کردار پر گفتگو کرتے ہوئے ایرانی دانشور کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان امریکی تسلط کے ہاتھوں بے انتہا متاثر ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ سیاست اور ایران میں ہونے والی تقسیم اس کی محض ایک مثال ہے جو عالمی قوتوں کی اس خطے میں مداخلت کے باعث ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کی طرح ہر ملک سے پرامن تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ وقت ہے کہ تہران اور اسلام آباد دونوں اپنے فیصلے خود لینا شروع کریں جو ان کے اپنے مفاد میں ہوں نہ کہ کوئی اور یہ فیصلے کرکے اپنی مرضی سے کھیل کے قواعد مقرر کرتا رہے۔

ایران کے بھارت کےساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر ایک سوال کے جواب میں سجادپور نے وضاحت کی کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہ کبھی پہلے اور نہ آئندہ پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ ثابت ہوں گے۔ انہوں نے اپنی دلیل کو ایرانی چاہ بہار بندرگاہ کی مثال دیتے ہوئے واضح کیا کہ جس کی تعمیر ان کے نزدیک پاکستان کی بندرگاہ گوادر کا  کسی طور نہ مقابلہ کرتی ہے اور نہ اسے کمزور کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بندرگاہیں درحقیقت ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کر رہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ اس طرح کا منظرنامہ تمام فریقین کے لیے کامیابی کے امکانات مزید بڑھا دیتا ہے۔

اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے سجاد پور نے نشاندہی کی کہ جنوبی ایشیا میں ایران اور پاکستان بہت اہم ممالک ہیں جن کے بغیر علاقائی معاملات حل نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ باہمی ترقی نہ صرف دونوں ممالک کو براہِ راست فائدہ پہنچائے گی بلکہ علاقے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گی۔

سجاد پور نے ان خیالات کا اظہار 12دسمبر 2018ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(IPS)، اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا جس کا موضوع تھا”موجودہ جغرافیائی و تزویراتی حرکیات: ایران کا نقطۂ نظر“۔ وہ اپنے ادارے کی سربراہ کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا دورہ کر رہے تھے جو دونوں اداروں کے درمیان 2016ء میں ہونے والی مفاہمتی یادداشت کا تسلسل ہے، اور جس کا مقصد عالمی اور علاقائی معاملات پر مشترکہ مطالعہ اور کانفرنسوں کے انعقاد کے ذریعے دونوں ممالک کے دانشوروں، ماہرین اور پالیسی سازوں کے درمیان گفتگو کو فروغ دینا ہے۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے