اسلامی معیشت اور مالیات کی اساس

Fundamentals-of-Islamic-Economic-Thumb

اسلامی معیشت اور مالیات کی اساس

 مصنفین: حافظ محمد یاسین, عتیق الظفر خان

ایڈیشن:  دوئم (2018ء),   اول (2016ء)

آئی ایس بی این:  9960-32-289-0

ناشر:  آئی پی ایس پریس

صفحات: 553

 

 

Fundamentals-of-Islamic-Economics-and-finance 

کتاب کا تعارف

اسلامی معیشت 20ویں صدی کی آخری سہ ماہی میں ایک منفرد تعلیمی شعبہ کی صورت میں ابھرا اور اب اس مضمون کو بہت سی یونیورسٹیاں انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ سطح کے کورسز میں شعبہ اکنامکس کے نصاب کا ایک حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اسلامی معیشت اور مالیات کے تعارف پر مبنی کچھ کتابیں پہلے سے مارکیٹ میں میسر ہیں تاہم یہ کتاب اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔

گذشتہ 50برس میں کی گئی جامع تحقیق کے باعث مارکیٹ میں اس مضمون کے نظریہ اور پالیسی پر مبنی مواد کثیر تعداد میں موجود ہے۔ تاہم یہ سارا لٹریچر سیکڑوں مختلف نوعیت کے رسائل، کتب اور دستی نسخوں کی صورت میں ہزاروں صفحات پر بکھرا پڑا ہے۔ اس وقت اسلامی معیشت اور مالیات کے فروغ کے لیے بڑی تعداد میں نمایاں ادارے موجود ہیں۔ جن میں اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI) بلا شک و شبہ رہنما کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ادارے دنیا کے مختلف حصوں میں کانفرنسوں، سیمیناروں، سمپوزیم اور ورکشاپوں کا انعقاد کرتے ہیں اور ان میں پیش کیا گیا مواد عمومی طور پر چھپی ہوئی شکل میں دستیاب ہو جاتا ہے۔ یہ مواد معروف علمی شخصیات اور پیشہ ور افراد کے نظریات پر مشتمل ہوتا ہے جس کا اظہار تکنیکی زبان میں کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو یہ خیالات اختلافی نقطۂ نظر کے باعث ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔

جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلامی معیشت اور مالیات ایک ابھرتا اور وسعت اختیار کرتا ایسا تعلیمی شعبہ ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کثیر تعداد میں کتب کی موجودگی اور اختلافی نقطۂ نظر کا حامل مواد نوجوان طالب علموں اور عمومی قارئین کے لیے الجھاؤ پیدا کردیتا ہے۔ درحقیقت یہ کسی بھی فرد حتیٰ کہ اسلامی معیشت کے ماہر کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ اس موضوع پر موجود تمام مواد کو ہضم کرسکے۔ یہ کتاب اہم پہلوؤں کو ایک جلد میں سمیٹنے کی کوشش ہے تاکہ ان مختلف نظریات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جاسکے جن میں علماء کے درمیان اتفاق رائے ہے اور اس سطح پر اختلافی رائے کو پس انداز کیا جاسکے۔ پوری کتاب میں اکنامکس کے متوازی نقطۂ نظر کی پیروی کی گئی ہے تاکہ اس کے تصورات کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔ یہ کوشش کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے