‘بنگلہ دیش میں تبدیلی: ابھرتا ہوا مقامی اور علاقائی منظر نامہ’

‘بنگلہ دیش میں تبدیلی: ابھرتا ہوا مقامی اور علاقائی منظر نامہ’

بنگلہ دیش کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بھارتی اثرو رسوخ کے خلاف مزاحمت ایک اہم وجہ قرار

بنگلہ دیش میں حالیہ ابھرتی ہوئی صورتحال کے پیچھے متعدد عوامل کار فرما ہیں جن میں بے روزگاری اور انتظامی مسائل پر عدم اطمینان کے ساتھ ساتھ ہندوستانی اثرو رسوخ کے خلاف مزاحمت بھی شامل ہے۔ یہ بدامنی ایک وسیع تر ، جاری عمل کی عکاسی کرتی ہے جسے حتمی سمجھنا  فی الحال قبل از وقت ہو گا۔

سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ اور ملک سے روانگی کے بعد بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس کو اپنے بین الاقوامی قد کاٹھ کے ساتھ اس ماحول میں ایک کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے  لیے واقعی کوئی مقامی ایجنڈا  تیار کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔

دریں اثناء  یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مفادات باہمی طور ہر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کےساتھ تعاون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان حالات میں ایک محتاط نقطہِ نظر اختیار کرنا بہتر ہو گا جس کے ذریعے بدلتے ہوئے حالات کی بغور نگرانی کی جا سکے۔

اس بات کا مشاہدہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ،اسلام آباد میں 15 اگست 2024 کو ‘بنگلہ دیش میں تبدیلی: ابھرتا ہوا مقامی اور علاقائی منظر نامہ’ کےعنوان سے منعقدہ ایک سیشن کے دوران کیا گیا جس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی۔  اس نشست کے کلیدی مقرر سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی تھے جبکہ اس سے سابق سفیر رفیع الزمان صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ واضح  رہے کے یہ دونوں مقرر بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

حالیہ پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہوئے سفیر افراسیاب ہاشمی نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ  بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لینے اور انہیں مضبوط کرنے کا ایک موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے شکایات  تو ہو سکتی ہیں لیکن کوئی گہری دشمنی نہیں ہے۔

دوسری جانب بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ صورتحال اب بھی آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہے، لیکن اس نے ہندوستان میں ایک تشویش کو جنم دیا ہے، بالخصوص جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دوبارہ ابھرنے کے امکانات کے حوالے سے۔

دوسری طرف بنگلہ دیش میں یہ بھی خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ بھارت کے اسٹریٹجک مفادات اس ملک کے سیاسی منظر نامے کو متاثر کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، خاص طور پر ان گروپوں کو ابھرنے  سےروکنے کے لیے جو اپنی تاریخی موقف اور بھارت مخالف جذبات کی وجہ سے بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

مزید برآں، چونکہ بی جے پی اور مودی کے تحت بھارت کو ایک انتہا پسند قوم پرست ایجنڈے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کی سیاسی سمت اور ہمسایہ ممالک بشمول بنگلہ دیش کے ساتھ اس کے تعلقات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

سفیر رفیع الزمان نے ابھرتی ہوئی صورتحال کے ردعمل میں ایک متوازن اور محتاط نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت پاکستان کو دوطرفہ تجارت، ثقافتی تبادلے اور نوجوانوں کے درمیان باہمی روابط بڑھانے کے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے نشاندہی کی کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال پر مختلف قومی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جہاں بنگلہ دیشیوں میں عدم اطمینان مختلف مسائل کی وجہ سے پیدا ہوا ، شیخ حسینہ کی بھارت کے ساتھ قریبی وابستگی نے بھی بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی پالیسیوں کے اثرات نے بنگلہ دیش میں آمرانہ دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی بیرونی مسائل پر یکساں نقطہِ نظر رکھتے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات بھارت کو اپنی خارجی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے