دعوۃ اکیڈمی کے اُنتالیسویں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پروگرام کے شرکاء کا آئی پی ایس کا دورہ – عالمی واقعات، علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال

دعوۃ اکیڈمی کے اُنتالیسویں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پروگرام کے شرکاء کا آئی پی ایس کا دورہ – عالمی واقعات، علاقائی استحکام پر تبادلہ خیال

 پاکستان کو اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے، علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلقات استوار کرنے، اور ہمسایہ ریاستوں کی دلچسپی  کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کرنے کوشش کرنی چاہیے۔

یہ بات 15 مئی 2024 کو آئی پی ایس کا دورہ  کرنے والے دعوۃ اکیڈمی کے 39 ویں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پروگرام (ایچ آر ڈی پی) کے زیرِ تربیت پاکستان کی مسلح افواج کے افسران  پر مشتمل ایک  وفد کے ساتھ انٹرایکٹو سیشن کے دوران کہی گئی۔

اس دورے کا مقصد وفد کو ملک کی پالیسی سازی کے ماحول میں تھنک ٹینکس کے آپریشن اور کردار سے متعارف کرانا تھا۔

دعوۃ اکیڈمی کے چیئرپرسن ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر عبدالفرید بروہی کی سربراہی میں دورہ کرنے والے وفد سے وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سیّد ابرار حسین اور ادارے کے سینئر ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت نے خطاب کیا۔

ندیم فرحت نے مندوبین کو آئی پی ایس کے پس منظر، تحقیق کے شعبوں، مختلف قومی اور عالمی مسائل پر کیے گئے اس کے کام، اور پاکستان اور بیرون ملک متعدد یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ مضبوط ادارہ جاتی تعلقات اور روابط سے متعارف کرایا تاکہ مختلف پالیسی پر مبنی موضوعات پر تحقیق کی سہولت فراہم کی جا سکے۔

پاکستان کی جغرافیائی سیاسی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابرار حسین نے اس کے اہم ٹرانزٹ روٹ کے طور پر اس کے اسٹریٹجک محل وقوع اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے اس کی جوہری صلاحیت پر زور دیا اوراس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ علاقائی استحکام کے حصول کے حوالے سے، اور بالخصوص اس کے وسائل کی صلاحیت اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کی طرف سے پیش کردہ اقتصادی مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس سیشن میں حالیہ عالمی پیش رفتوں پر بھی غور کیا گیا، جن میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، روس-یوکرین تنازع، ایران-سعودی تعلقات، غزہ پر اسرائیل کی جنگ، امریکہ-چین دشمنی اور بھارت کی ہندوتوا پر مبنی پالیسیاں شامل ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے ان پیش رفتوں پر پاکستان کے ردعمل کا تجزیہ کیا اور ان پیچیدہ جغرافیائی سیاسی حرکیات کے بیچ غیر جانبداری اور توازن برقرار رکھنے کی اس کی کوششوں کو نوٹ کیا۔

امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے یہ بات اجاگر کی گئی کہ پاکستان نے تو تعاون بڑھایا ، لیکن پاکستان کے اندر سیکورٹی خطرات میں اضافہ ہوا ، جس میں 2023 میں دہشت گردی کے حملوں میں 73 فیصد اضافہ بھی شامل ہے جبکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی مبینہ طور پر طاقت حاصل کر رہی ہے۔

روس اور یوکرین جنگ کے جواب میں بھی پاکستان نے غیر جانبدارانہ موقف برقرار رکھا اور کامیابی سے کسی بھی فریق کے ساتھ صف بندی سے گریز کیا۔ اسی طرح ایران سعودی اتحاد نے پاکستان کو علاقائی تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کا موقع فراہم کیا۔

اسرائیل اور غزہ جنگ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفیر ابرار نے کہا کہ اب تک 35000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کا فوری نتیجہ نظر آنے والی تباہی کی صورت میں نکلا، لیکن اس نے ابراہم معاہدے کے اثرات کو روک دیا جس کے تحت عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کیا تھا۔ مزید یہ کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے اور آئرن ڈوم سے فائدہ اٹھانے کا افسانہ اس جنگ کے ساتھ ختم ہو گیا اور مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر دوبارہ ایسے ابھرا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، فلسطین کی اقوام ِمتحدہ کی رکنیت کے لیے ایک قرارداد کو ممبر ممالک کی جانب سے 143 ووٹ ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ پاکستان فعال طور پر فلسطین کی حمایت نہیں کر سکا لیکن وہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی ساتھ سفارتی حمایت کی آواز بنا رہا ہے، اور اس کے ساتھ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے کی قانونی حمایت بھی کرتا ہے اور اسے انسانی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔

امریکہ چین دشمنی کے تناظر میں پاکستان نے کسی بھی کیمپ میں شامل ہونے سے گریز کرتے ہوئے ناوابستگی کا موقف برقرار رکھا۔

مزید برآں، نشست میں بھارت کے ہندوتوا نظریہ کے جارحانہ انداز پر تشویش کا اظہار کیا گیا، جس کے موجودہ انتخابات میں بی جے پی کی ممکنہ کامیابی کے بعد غیر ہندوؤں کے لیے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو پاکستان کے قیام کی طرف لے جانے والے واقعات ، جیسے کہ 1920 ءکی دہائی میں شدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں سے تشبیہ دی ۔

ان پیش رفت کی روشنی میں اسپیکر نے پاکستان کے لیے اس اہمیت پر زور دیا کہ وہ مخصوص کیمپوں کے ساتھ صف بندی کرنے سے گریز کرے، اقتصادی اور سیاسی استحکام کو ترجیح دے، علاقائی اقتصادی تعاون کو بڑھائے، اور اپنی خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں سمجھداری سے کام لے۔

اس کے بعد مندوبین کے ساتھ سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ سیشن کے اختتام پر ڈاکٹر فرید بروہی نے آئی پی ایس اور اس کی ٹیم کا افسروں کے ساتھ مؤثر بات چیت اور ان کی میزبانی کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے