’ ڈیفینس مارکیٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس: فوجی حکمتِ عملی اور قومی سلامتی میں ایک پیراڈائم شِفٹ‘

’ ڈیفینس مارکیٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس: فوجی حکمتِ عملی اور قومی سلامتی میں ایک پیراڈائم شِفٹ‘

آئیڈیاز 2022 سیمینار میں پاکستان کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر تحقیق کا مرکز بنانے کا عزم

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں ہونے والی تیز رفتار ترقی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان بھی اس پیش رفت سے مطابقت پیدا کرے اور  ٹیکنالوجی سے متعلق عملی تحقیق کے ذریعے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیٹا سائنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز (ایل او ٹی)کے میدانوں میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ وہ تحقیق، تخلیقی صلاحیتوں، اشتراک عمل اور مہارتوں کو یکجا کرنے کے لیے کلیدی اداروں کے طور پر کام کرتی ہیں۔

یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ،اسلام آباد اور ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن (ڈیپو) کے اشتراک سے 16 نومبر 2022 کو ’ ڈیفینس مارکیٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس: فوجی حکمتِ عملی اور قومی سلامتی میں ایک پیراڈائم شِفٹ‘ کے عنوان سے ہونے والے دو روزہ سیمینار کے دوسرے دن پیش کیے گئے جس کا انعقاد بروز بدھ آئیڈیاز 2022 کے ایک حصے کے طور پر ایکسپو سینٹر کراچی میں کیا گیا ۔

سیمینار کے پہلے دن کی نظامت ضیاء الدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان حیدرنے کی جبکہ سیکرٹری وزارت دفاعی پیداوار، لیفٹیننٹ جنرل (ر) ہمایوں عزیز، ہلال امتیاز (ملٹری)،مہمان خصوصی تھے۔ میجر جنرل محمد عارف ملک، ہلال امتیاز (ملٹری)، ڈائریکٹر جنرل ڈیپو ؛ لارس جی اے حلسے، ڈیجیٹل حکمت عملی اور سائبر سیکیورٹی کے شعبے میں ایک جرمن اسکالر اور عالمی سوچ کے رہنما؛ ڈاکٹر سگیت جاروٹ، سی ای او کلاوڈٹیک اورہیڈ آف انفراسٹرکچر ماسٹیل، انڈونیشیا؛  ڈاکٹر یاسر ایاز، سی پی ڈی /چیئرمین، نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس؛ اور ڈاکٹر جواد شمسی، ڈین، فاسٹ نیوکیس فیکلٹی آف کمپیوٹر ، سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں شامل تھے۔

فورم کے دوسرے روز وفاقی وزیر دفاعی پیداوار محمد اسرار ترین نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے تعارفی کلمات ادا کیے جبکہ ڈاکٹر یاسر ایاز، سی پی ڈی/چیئرمین، این سی اے آئی نے تقریب میں نظامت کے فرائض ادا کیے۔ مقررین میں لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر غلام مرتضیٰ، کالج آف ای ایم ای، نسٹ؛ ڈاکٹر محمد طیب علی، این سی اے آئی، نسٹ؛ میجر عون صفدر، کالج آف ای ایم ای، نسٹ؛ ڈاکٹر ولید بن شاہد، ایم سی ایس، نسٹ؛ لیفٹیننٹ کرنل عثمان ضیا، ایم سی ایس، نسٹ؛ اور سکواڈرن لیڈر جویریہ فاروق، سی اے ای، نسٹ شامل تھے۔

سیمینار میں شریک مختلف غیر ملکی معززین، اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس، سرکاری اور نجی صنعتوں کے نمائندوں اور ماہرین قانون نے  دونوں دنوں میں پیش کی گئی بصیرت انگیز پریزینٹیشنزکے بعد دو انتہائی ماہر پینلز کی جانب سےہونے والی انتہائی فکر انگیز گفتگو میں حصہ لیا۔

مصنوعی ذہانت کے اطلاق کی مختلف جہتوں پر گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ہمایوں عزیز نے اسے ایک پرامید ہدف، ایک گیم چینجر اور ایک تبدیلی والی قومی سلامتی ٹیکنالوجی قرار دیا جو فوجی کامیابی کے کئی امکانات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع اور سلامتی سے متعلق کئی خطرات کا توڑ بھی لا رہی ہے۔

پہلے دن کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے تین بڑے شعبوں پر مصنوعی ذہانت میں بڑھتی ہوئی پیش رفت سے نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ان میں  فوجی برتری، معلومات کی برتری، اور ڈیٹا کے ذریعے اقتصادی برتری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ڈیٹا سے چلنے والی ٹیکنالوجی، مشین  سےسیکھنے والی ٹیکنالوجی، نیٹ ورک ٹیکنالوجیز، اور سائبر ڈیفنس ٹیکنالوجی وغیرہ سے ممکن ہو گا۔

بین الاقوامی سلامتی کے ماحول سے متعلق مستقبل کے پہلووں اور دفاع میں تزویراتی تبدیلیوں  پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  یہ مصنوعی ذہانت اورمصنوعی ذہانت سے چلنے والی ایپلی کیشنز پر منحصر ہے، جو اب ریاستوں کے اہم ستون بن چکی ہیں۔ تاہم، یہ پیش رفت خطرات کو کم کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں روایتی صلاحیتوں کی اہمیت اور انحصار کو کم نہیں کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بائیو ٹیک، اسٹریٹجک ہتھیاروں اور کمپیوٹرز کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے بل بوتے پر ہونے والی جنگ کے لیےاس بدلی ہوئی صورت حال  کے مطابق مسلح افواج تیار ہوں گی اور جدید جنگ اور ریاستوں کے سیکورٹی آلات میں ایک مثالی تبدیلی آئے گی۔

جدید ترین ٹیکنالوجی ، مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ذریعے صنعتی اور دفاعی شعبوں میں پاکستان کی ترقی کا اعتراف کرتے ہوئے دوسرے دن کے مہمان خصوصی محمد اسرار ترین نے کہا کہ پاکستان جدید ترین ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والی ایپلی کیشنز کی مدد سے تعلیم، کاوربار اور تحقیق کے شعبوں میں انقلاب لا کر دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیٹا سائنس، کلاؤڈ-نیٹیو کمپیوٹنگ، ایج کمپیوٹنگ، بلاک چین، آگمینٹڈ ریالٹی اور انٹرنیٹ آف تھنگز  کا مرکز بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی مراکز، ریسرچ اسکالرز، اور ڈیٹا سیوی افراد کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کوپریزیڈینشی ال انیشی ایٹو فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس اینڈ کمپیوٹینگ (پی آئی اے آئی سی) جیسے اقدامات کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور چوتھے صنعتی انقلاب (انڈسٹری 4.0) کے میدان میں مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔

انہوں نے کہا کہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے علاوہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور فائیو جی جیسی جدید ٹیکنالوجیز نے عصری جنگ، میدان جنگ اور اس کی حکمت عملیوں کی پوری حرکیات کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔  ان تزویراتی تبدیلیوں کے ساتھ، سیکورٹی کا تصور روایتی اصطلاحات اور ابتدائی طریقہ کار سے آگے بڑھ  کرمنظم میکانزم اور ٹیکنالوجی پر مبنی طریقہ کاروں میں تبدیل  ہو گیا ہے، جو کہ ریاستوں کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

ہتھیاروں کے نظام کی عالمگیریت اورمصنوعی ذہانت میں پیشرفت پر روشنی ڈالتے ہوئے، میجر جنرل عارف نے اس بات پر زور دیا کہ نئی ٹیکنالوجیز نے دفاع اور سلامتی کے شعبے میں مصنوعی ذہانت سے مربوط نظاموں کی ترقی میں مواقع اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے انٹیلی جنس جمع کرنے اور تجزیہ کرنے، لاجسٹکس، روبوٹکس، سائبر مشنز، انفارمیشن آپریشنز، C2، اور خود مختار ہتھیاروں کے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال اور مصنوعی ذہانت پر ریسرچ کے لیے بیداری پیدا کرنےپر توجہ دلائی تاکہ عالمی سطح پر حقیقی دنیا کی فوجی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کو بہتر طور پر شامل کیا جا سکے۔

مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت نہ صرف لوگوں کے رہن سہن، ملازمت کی کارکردگی، لوگوں کے درمیان تعامل، لوگوں میں فیصلہ سازی  اور سیکھنےکے عمل ،تنظیموں کے آپریشنل اور کاروباری ماحول کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ اس نے فوجی حکمت عملی اور جنگ کے تصور کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔

ترقی کے عمل میں انسانی عقل اور تحقیق کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے، خالد رحمٰن کہا کہ تحقیق کے ذریعے ہی انسان علم کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے، اسے ذخیرہ کرنے، اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے، اسے جلد سے جلد پراسیس کرنے اور پھر اس کا تجزیہ کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس سلسلے میں  یونیورسٹیوں نے معاشرے، ثقافت، معاشیات، اور ماحولیات کے کلیدی شعبوں اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے شعبے میں، جس کا اثر اب زندگی کے ہر میدان میں جھلکتا ہے، ترقی کی رفتار طے کرنے کے لیے کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مصنوعی ذہانت میں ترقی کبھی نہیں رکے گی اور کسی بھی ملک کو اس کی ترقی میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔

مصنوعی ذہانت کی ترقی میں بنیادی کردار یونیورسٹیوں کے ذریعے ہی دیکھنے میں آتا ہے، جہاں اس پر تحقیق، تخلیق اور تعاون کا ماحول، نہ صرف مصنوعی ذہانت سے متعلقہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ مہارت، بصیرت اور ایک سے زیادہ نظریات کے امتزاج سے اس کام میں درپیش مختلف قسم کے چیلنجوں سے نمٹنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

اکیسویں صدی کے نئے پیچیدہ سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دیگر مقررین نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی مختلف ایپلی کیشنز اور پروسیسز پر اپنے تحقیقی مقالے، خیالات اور نتائج پیش کیے، جن پر مستقبل کی بین الاقوامی سلامتی کی حرکیات کا انحصار بڑی حد تک متوقع ہے۔

ہائبرڈ، سائبر اور نیٹ ورک- سنٹرک وارفیئر(این سی ڈبلیو) میں مصنوعی ذہانت کے لیے نمایاںسرمایہ کاری دیکھی گئی ہے۔ جیسا کہ لارس ہلس نے کہا کہ جعلی خبروں، غلط فہمی پر مبنی اطلاعات، غلط معلومات، شہری انفراسٹرکچر پر سائبر- فزیکل حملوں، رائے کی ہیرا پھیری، مخالفانہ جاسوسی اور انٹیلی جنس کو اکھٹھا کرنےکی ہائبرڈ جنگ کے عمل میں موجود مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز شہری بدامنی کو جنم دیتی ہیں اور اس کی وجہ سے اقتصادی  اور سیکورٹی کے سنگین  اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح کا معاملہ سائبر سیکیورٹی میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا ہے جو دفاعی نقطہ نظر کے حامل ایک مضبوط سیکورٹی فریم ورک کے لیے عملی اقدامات کا تقاضا چاہتی ہے، جو اہم بنیادی ڈھانچے کی شناخت اور ترجیح ، مؤثر مقننہ، باقاعدگی سے تناؤ اور دخول کے ٹیسٹ، مسلسل خطرے کی جانچ(سی وی ٹی)، اور کثیر پرتوں والے نیوٹرل نیٹ ورکس پر مبنی ہوں۔

5 جی نیٹ ورک سینٹرک وارفیئر (این سی ڈبلیو) پر سگیت جاروٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سےاعتماد حاصل کر رہا ہے کیونکہ اسے معلومات اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والی ٹیکنالوجیز سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اسے مسابقتی مفادمیں تبدیل کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کی لڑائیوں میں 5جی کو ہتھیار بنانے کی ضرورت ہوگی۔ لہذا،  اس بات کی ضرورت ہے کہ مستقبل کی فوجی مہم جوئیوں کے لیے 5جی کے مطالعہ اور اسےترقی دینے پر توجہ مبذول کی جائے تاکہ5جی فوجی فیصلہ سازی، 5جی سمارٹ ویئر ہاؤسنگ، 5جی  ڈسٹریبیوٹڈ سی 2، 5جی اے آر/وی آر، 5 جی  برائےٹیکٹیکل ملی میٹر ویو نیٹ ورکس، 5 جی غیر- زمینی نیٹ ورکس، پروکسی میٹی سروسز(پرو ایس ای) اور 5 جی  جیو- انٹیلی جنس جیسے امور کو زیر بحث رکھا جا سکے۔

ان ایپلی کیشنز کے علاوہ، 5 جی  دفاعی مارکیٹ میں ایسی حیثیت حاصل کرنے جا رہا ہے کہ یہ  کمپاؤنڈ سالانہ شرح نمو-67.7 فیصد (2030-2021) – کے ساتھ 2030 تک 76,014.64  ملین ڈالر  تک پہنچنے کی امید ہے۔

ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے ڈیپ لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے آرٹلری اور ٹینک گن بیرل کی خودکار غلطی کا پتہ لگانے / الگ تھلگ کرنے پر اپنا مطالعہ پیش کیا اور دستی امتحان کے ایک سستے اور زیادہ درست متبادل کے طور پر روبوٹک معائنہ کے لیے دلائل دیے۔

ڈاکٹر طیب علی نے غلط معلومات اور غلط بیانی کے پھیلاؤ کے خطرات اور دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور ففتھ جنریشن وارکے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سمارٹ میڈیا مانیٹرنگ اور اینالیٹکس سسٹم  جیسےمصنوعی ذہانت سےچلنے والے آلات اور میکانزم کو وضع کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

میجر عون صفدر نے دکھایا کہ تھرمل انفراریڈ امیجری سے ریئل ٹائم آٹومیٹک ٹارگٹ ڈیٹیکشن اینڈ ریکگنیشن(اے ٹی آر)کس طرح ایک چیلنجنگ کمپیوٹر ویژن ٹاسک ہے ۔ انہوں نے وائے او ایل او-اے ٹی آرنامی ایک ماڈل تجویز کیا جو کہ ایک ترمیم شدہ اینکر پر مبنی سنگل- اسٹیج ڈیٹیکٹر ہے، جس سے  99.6 فیصد تک اے ٹی آر کی کارکردگی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر ولید بن شاہد نے اپنی تحقیق میں ویب ایپلیکیشن حملوں میں ہونے والےاضافے کی نشاندہی  کرتے ہوئے ڈیپ لرننگ بیسڈ-ایپروچز اور فریم ورکس کی نشاندہی کی۔ انہوں نے سٹیٹک ایپلیکیشن سیکیورٹی ٹیسٹنگ ٹیکنیک(ایس اے ایس ٹی)آؤٹ پٹ  کے لیے  مصنوعی ذہانت پر مبنی حملے کا پتہ لگانے  والے  فریم ورک کو  بھی پیش کیا۔

عثمان ضیاء نے ریموٹ سینسنگ امیجز کو متن  میں تبدیل کرنے کے فوائد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایک ایسا ماڈل تجویز کیا جو فرنٹ لائن اور کمانڈ سینٹر کے درمیان معلومات کے تبادلے اور ریموٹ سینسنگ امیج ریٹریول(آر ایس آئی آر)اور امیجزکے تجزیہ میں نتائج کو بڑھا سکتا ہے۔

ان دیکھے ڈیٹا کی وجہ سے آبجیکٹ ڈیٹیکٹرز کی کارکردگی میں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے، جویریہ فاروق نے بیرونی آبجیکٹ کا پتہ لگانے کے لیے کم ریزولیوشن ڈی 2ڈیٹاسیٹس کے ڈومین رینڈمائزیشن ماڈل کو عام کرنے  کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا  کہ ماڈل کو دوبارہ تربیت دینے سے پتہ لگانے کی درستگی میں 92 فیصد بہتری آئی۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے