’پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال: انضمام کے امکانات بمقابلہ وطن واپسی‘

’پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال: انضمام کے امکانات بمقابلہ وطن واپسی‘

پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی واپسی اہم انسانی سرمایہ سمجھنا چاہیے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی سرمایہ کاری کے طور پر ان کی مثبت واپسیکی طرف پیشرفت کرنی چاہیے۔

 2022-04-12-DIscussion-on-Afghan-Refugee

پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی واپسی اہم انسانی سرمایہ سمجھنا چاہیے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی سرمایہ کاری کے طور پر ان کی مثبت واپسیکی طرف پیشرفت کرنی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی حل اور ایک مناسب طریقہ کار وضع کیا جائے جس کی بنیاد پرے دھکیلنے اور واپس کھینچنے کے مخصوص عوامل کو مد نظر رکھنے ، اس پرمؤثر قانون سازی، مستند ڈیٹا کی موجودگی اور تفصیلی تحقیق پر ہو۔

افغان مہاجرین کی وطن واپسی یا انضمام  کے امکانات اور مضمرات اور پاکستان میں ان کی حیثیت پر سوچ بچار کرنے کے لیے، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) نےادارے کی ریسرچ ایسوسی ایٹ،سٹمسن سنٹر کی فیلو  اور ریسرچ اینالسٹ نورالعین نسیم کے ساتھ 20 اپریل 2022 کو ایک  برین سٹورمنگ سیشن  کا انعقادکیا۔

یہ اجلاس آئی پی ایس کی رہنمائی میں نورالعین نسیم کے کیے گئے تحقیقی مطالعہ کی موضوعاتی دلچسپی اوراس کے دائرہ کار کا تعین کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ اجلاس میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، وائس چیئرمین ایمبیسیڈر(ر) سید ابرار حسین، جنرل مینیجر آپریشنز  نوفل شاہ رخ اوران ہاؤس ریسرچ ٹیم نے شرکت کی۔

اپنے تحقیقی خیالات پیش کرتے ہوئے، نورالعین نے اپنے مطالعے کے بعض بنیادی عوامل پر روشنی ڈالی جو پاکستان میں موجود افغان شہریوں کی وطن واپسی یا انضمام کے امکانات کو واضح کرتےہیں۔ ان عوامل میں پاکستان کے اندر تحقیق اور معلومات میں خامی، پاکستان کے قانون سازحلقوں اور انتظامیہ کی عدم فعالیت اور افغانستان کے اندر سیاسی اتار چڑھاؤ شامل ہیں۔

تحقیق اور معلومات کی خامی کا مطلب ہے کہ فطرت، تعدد، تارکین وطن کی ترجیحی منزل، اور پاکستان میں 2.5 ملین کی تعداد میں موجود پناہ گزینوں کے بارے میں درست، مستند اور باقاعدگی سے اپ ڈیٹ شدہ ڈیٹا کی کمی ہے۔ ان میں سے صرف 1.4 ملین اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے تحت بہت کم معلومات کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح مختلف پہلووں سےحکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے اداروں کے درمیان افغان مہاجرین کے ڈیٹا کے حوالہ سے واضح تنازعہ موجود ہے۔

یہ خامی پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا کے استحصال کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی اور سخت سلوک کیا جا رہا ہے، پاکستان وہ ملک ہے جہاں ان کا کھلے عام استقبال کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کے اس منظر نامے کے ساتھ، پاکستان کوسچائی پر مبنی اعداد و شمار فراہم کرکے اور معلومات، ڈیٹا، پالیسی اور تحقیقی خلا کو پُر کرکے بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے جھوٹی تصویرکشی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

پاکستان کی قانون سازی اور انتظامی غیر فعالی سے مراد افغان مہاجرین کے انتظام، وطن واپسی اور انضمام میں گورننس کے مسائل ہیں۔ اسپیکر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک اہم مسئلہ پاکستان کی قانون سازی میں مہاجرین کے لیے ٹھوس تعریف کی عدم موجودگی ہے۔ کسی ٹھوس تعریف کے بغیر افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور انضمام کے لیے نہ تو کسی موثر قانون کی آڑ  لی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس مسئلے کاکوئی جامع حل نکل سکتا ہے۔

چونکہ پاکستان کے پاس پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی ریاستی سطح کا قانون نہیں ہے، اس لیے متعلقہ مقدمات 1951 کے مہاجرین کنونشن کے ساتھ ساتھ اس کے پروٹوکول 1967 کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں، جو مہاجرین کے تحفظ اور حیثیت سے متعلق اہم بین الاقوامی قانونی دستاویز ہے اور جس پر پاکستان دستخط کنندہ نہیں ہے۔ پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والا مرکزی ادارہ ایک بین الاقوامی ادارہ ’یواین ایچ سی آر‘ہے، جس کا مہاجرین، ان کے حقوق اور فرائض کے حوالے سے اپنا مینڈیٹ ہے۔ یو این ایچ سی آر 2022 کے تحت 53 فیصد عطیات 129 ملین ڈالر کے فنڈنگ ​​وعدے کے تحت امریکہ فراہم کرتا ہے جبکہ اس کا صرف 58 فیصد دستیاب ہے۔ یہ اس سارے منظر نامے میں حکومت کی لاپرواہی کا اظہار ہےاور اسی نے پاکستان کے اداروں میں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میںکوتاہی کو جنم دیا ہے۔

چونکہ پناہ گزینوں کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے، اس لیے پاکستان سرکاری دستاویزات میں افغان اور دیگر پناہ گزینوں کے لیے ’بیرونی بے گھر افراد‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ چونکہ اصطلاح ’مہاجرین‘ کے ساتھ کچھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں، اس لیے ’بیرونی بے گھر افراد‘ کی اصطلاح سےان سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اور خامی ہے جو مذکورہ صلاحیت کی تکمیل میں رکاوٹ ہے۔

ایک اورفکر انگیز بات پناہ گزینوں کی صورت حال کی سیکورٹائزیشن  ہے، جیسا کہ پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کے 19ویں نکتے میں اسے سیکورٹی کا ایک ہدف قرار دیا گیاہے۔یہ پناہ گزینوں کے مسئلے کو سیاسی سے سیکیورٹی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ صورت حال طویل مدت میں نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان میں پناہ گزینوں کی اس طویل صورتحال کےحل نہ ہونے کی وجہ مؤثر قانون سازی کی غیر موجودگی، انتظامی امور میں غفلت اور اہم امورپرعمل درآمدکا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سیاسی عدم دلچسپی ہے۔

مزید برآں، پاکستان کی جانب سے اس طویل صورتحال کو ایک بار پھر شدت دی جا رہی ہے۔کیونکہ وہ 2009 سے پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں توسیع کے حوالے سے یو این ایچ سی آر کے ساتھ معاہدے کو اپ ڈیٹ کر نے میں مسلسل تاخیر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف افغانستان کے حالات میں جو اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے وہ ملک میں غیر متوقع سیاسی اور اقتصادی صورتحال کو ہوا دیتا رہتا ہے۔ ابھی بھی ملک طالبان کے قبضے کے بعد سے غیر مستحکم ہے۔ اس کے نتیجے میں 700,000 بے گھر ہو گئے لوگوں اوردیگر 18 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ حالات کے اس اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں پاکستان میں پناہ گزینوں کی آمد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ 2.5 ملین افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے امکانات بھی کم ہو سکتے ہیں، جن کی پاکستان  میزبانی  کرتا آ رہاہے۔

سپیکر کے مطابق، مضبوط حوالہ کے لیے، پاکستان کو حکومتی، بین الاقوامی غیر حکومتی اداروں اورافغان مہاجرین  کے انتظام و انصرام میں عوامی سطح پر اختیار کیے گئے طریقہ کار اور سرمایہ کاری  کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ پاکستان میں مہاجرین کی میزبانی پر ہونے والے اصل اخراجات کا اندازہ لگایا جا سکے۔

اس کے علاوہ، پاکستان کو انہیں اہم انسانی سرمائے کے طور پر دیکھنا چاہیے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر مثبت انداز میں ان کی واپسی کرنی چاہیے۔ مزید برآں، پاکستان کوانہیں واپس بھیجنے کے لیے عوامل ترتیب دینے چاہییں اور متعلقہ حکام کو پناہ گزینوں کے انتظام، وطن واپسی اور انضمام کے لیے پالیسی کے اختیارات تجویز کرنے چاہئیں۔

نورالعین نے اس موضوع کی مختلف جہتوں پر تحقیق اور تجزیہ کرنے کی ضرورت پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کی نقل و حرکت کی موجودہ سطح، آبادیاتی اختلاط، اورموجودہ نقل مکانی کی وجوہات پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان کی رجسٹریشن، کیمپنگ، اور انضمام کا انتظام کیسے کیا جا رہا ہے؛ پاکستان کی طرف سے پناہ گزینوں کو واپس نہ بھیج سکنے کی وجوہات کیا ہیں؛ وطن واپسی کیے لیے اختیار کیے گئے ممکنہ عوامل کیا ہیں؛ قانون سازی میں تاخیر اورموجود خلاء کی وضاحت کیسے ہے؛ افغان پناہ گزینوں اور سیکورٹی کے مسائل کے درمیان ربط کیسے  قائم کیا گیا ہے۔ وغیرہ

ابرار حسین نے تقریباً 10 لاکھ ایسے افغان مہاجرین کے مسئلے  کےحل کی ضرورت پر روشنی ڈالی جو غیر رجسٹرڈ ہیں اور ڈیٹا کی عدم موجودگی کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی طرف سے وطن واپسی سے بچنے کے لیے پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کرنے کے معاملے پر بھی بات کی۔ انہوں نے مہاجرین کواہم انسانی سرمایہ کے طور پرزیر غور لانے اور اس کے لیےکوئی مناسب طریقہ کار طے کرنے پراسپیکر کےخیالات کی بھی توثیق کی۔ مزید برآں، پاکستان میں پش فیکٹرز پیدا کرنے کے سپیکر کے خیال کو شامل کرتے ہوئے، انہوں نے  کہا کہ افغانستان میں واپسی اور انضمام کو آسان بنانے کے لیے کچھ خاص عوامل بھی ہونے چاہئیں۔

خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات میں  تبصرہ کرتے ہوئے اس ریسرچ ایسوسی ایشن کی ترغیب کو ایک وسیع تر مقصد گردانا۔ انہوں نے کہاکہ تحقیق کے دوران اور نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے بعض پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ان میں افغان مہاجرین کی واپسی اور افغانستان میں ان کے انضمام میں امریکی حکومت کی دلچسپی اور اقدامات ؛ کو شامل ہیں۔ پاکستان کی طرف سے 1951 کے مہاجرین کنونشن پر دستخط نہ کرنے کی وجہ؛  افغانستان میں جاری منظر نامہ اور پاکستان میں مہاجرین کی آمد کی صورت میں اس کے اثرات؛ پل فیکٹرزکے اثرات؛  مہاجرین کی کسی قانونی تعریف کی عدم موجودگی، اعداد و شمار کی شفافیت میں کمی، قانون سازی کی غیر فعالیت اور گورننس میں کوتاہیاںاور پاک افغان تعلقات کی طویل تاریخ  کےمختلف ادوارمیں مہاجرین کی صورتحال کو متاثر کرنے والے عوامل  شامل ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے