آئی پی ایس کی بزرگ شہریوں کے سماجی تحفظ سے متعلق صوبائی قوانین کی پیچیدگیوں کی نشاندہی

آئی پی ایس کی بزرگ شہریوں کے سماجی تحفظ سے متعلق صوبائی قوانین کی پیچیدگیوں کی نشاندہی

 بزرگوں کی مجموعی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے خاندانی ذمہ داری، کمیونٹی کی شمولیت، اور کثیر جہتی قانونی ڈھانچہ کی پیروی کرتے ہوئے بزرگ شہریوں کے وقار اور حقوق کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس)کے سینئر ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت نے وزارت انسانی حقوق کے زیر اہتمام ‘پاکستان میں عمر رسیدگی اور جامع ترقی’ کے موضوع پر  23-24 نومبر 2023 کو ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے تعاون سےہونے والے دو روزہ قومی سیمینار میں آئ پی ایسکی نمائندگی کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی۔ آئ پی ایس کی جونیئر ریسرچ آفیسر منیبہ راسخ  اور جونیئر ریسرچر  مریم احسان نے بھی اس فورم میں شرکت کی۔

سیمینار سے عمر رسیدگی اور جامع ترقی کی فیلڈ سے تعلق رکھںے والے قانونی ماہرین، پالیسی سازوں، اور اسٹیک ہولڈرز نے خطاب کیا جس کا بنیادی مقصد عمر رسیدگی سے متعلق موجودہ قانونی فریم کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے میں تمام عمر کے گروپوں کے لیے جامع ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری پالیسیوں کا جائزہ لینا اور ان پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

مقررین نے قانونی حقوق، سماجی شمولیت، صحت کی دیکھ بھال، اور بزرگ آبادی سے متعلق معاشی شرکت  جیسے  اہم پہلوؤں کو کلیدی خطابات، پینل مباحثوں، اور انٹرایکٹو سیشنوں میں ان متعلقہ معاملات پر جامع مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے غور کیا۔

‘پالیسی تجزیہ: قانونی ڈھانچہ اور عمل درآمد’ کے بارے میں اپنی بصیرت پیش کرتے ہوئے، ندیم فرحت نے روشنی ڈالی کہ پاکستان ان پندرہ ممالک میں سے ایک ہے جہاں بڑی عمر کے بالغ افراد کی نمایاں آبادی ہے اور اس کی آبادی کا تقریباً 7 فیصد حصہ 60 سال سے اوپر کے تقریباً 14 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ . یہ بصیرت برٹش کونسل کی رپورٹ ’پاکستان میں معمر افراد کے حقوق کو فروغ دینے اور تحفظ فراہم کرنا‘ سے اخذ کی گئی ہے۔

پریزنٹیشن کے دوران، فرحت نے بزرگ شہریوں کے سماجی تحفظ سے متعلق صوبائی قوانین کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ موجودہ قوانین میں موجود خامیوں کو مقامی حل کے ذریعے دور کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بزرگوں کے تئیں خاندانی ذمہ داری سے نمٹنے کی اہم ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خاندان کے بزرگوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری طے کی جانی چاہئے۔

تاریخی تحفظات کو اجاگر کرتے ہوئے، انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے 1998-99 کے مجوزہ قانون کا حوالہ دیا، جس میں غریب خاندان کے افراد کے لیے فریم ورک پر توجہ مرکوز کی گئی، اور عصری مطابقت کے لیے اس مسودے پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی۔

صحیح حل عراق، تیونس اور اردن جیسی مسلم ممالک کی عالمی مثالوں کے ارد گرد بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں، جہاں اسی طرح کے قانونی فریم ورک بزرگ شہریوں کے لیے سماجی تحفظ کے نمونوں کی بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان سینئر سٹیزنز ایکٹ 2017 پر بھی روشنی ڈالی اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار خاندانوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے اس کی دفعات پر زور دیا۔ مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے خاندانوں کے لیے گلگت بلتستان سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ 2022 میں بھی یہی تحفظات موجود ہیں۔

اس بحث نے بوڑھے افراد کی فلاح و بہبود کی وکالت میں کمیونٹی کی سطح پر شمولیت اور نیٹ ورکنگ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ اس گفتگو کے کلیدی نکات جذباتی بندھنوں کے ذریعے بزرگوں کے وقار کے تحفظ، زندگی کے ہر مرحلے میں مقصد اور پیداواری صلاحیت کی اہمیت اور بزرگوں کی دیکھ بھال میں خاندانی ذمہ داری کی ناگزیر نوعیت پر مرکوز رہے ۔

پریزنٹیشن میں سماجی فریم ورک کے کردار پر بھی زور دیا گیا اور تجربات کا اشتراک کرنے اور مقامی سماجی ماڈلز کو چلانے کے لیے صوبوں کے درمیان تعاون کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ بحث میں مشترکہ اقدار کی عکاسی کرنے والے معاشرتی قوانین کے مطالعہ اور ان کے مؤثر نفاذ کے لیے حالات کے مطابق ڈھل جانے وال ماڈلز کی تخلیق پر بھی زور دیا گیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے