گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی انصاف کی فراہمی اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے: چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ

گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی انصاف کی فراہمی اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے: چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ

گھریلو تشدد کے خلاف صوبائی قوانین شریعت کے مطابق انصاف کی فراہمی اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی جانب اہم اقدامات ہیں اور ان کی بنیاد یہ ہے  کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کا تشدد حرام ہے۔ ایسے میں جب پاکستان میں گھریلو تشدد اہم معاشرتی مسئلے کے طور پر اجاگر ہو رہا ہے، یہ مسلم معاشرے کی مجموعی طور پر  ذمہ داری ہے کہ وہ غیر اسلامی معاشرتی ڈھانچے، معیارات ،رسوم و رواج  اور رجحانات کو رد کرتے ہوئے اسلام پر مبنی قوانین کے درست نفاذ کے لیے پیش قدمی کرے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ درست سمت میں بظاہر چھوٹے اقدامات بھی اہم ہیں۔

یہ بات وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس اور عالم جج ڈاکٹر سید محمد انور نے خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق پنجاب کے قانون مجریہ 2016  کے تناظر میں وفاقی شرعی عدالت کے  حالیہ فیصلے کے حوالے سے8 دسمبر 2022 کو ہونے والے  اپنے لیکچر کے دوران کہی۔  یہ لیکچر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز[آئی پی ایس] کے اشتراک سے منعقد ہوا۔

ڈاکٹر انور نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام نے عورتوں کو ان کے حقوق مغرب سے بہت پہلے دیے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اسلامی اصولوں اور احکام کو صحیح معنوں میں سمجھا اور نافذ نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں یہ ایک کامیابی ہے کہ پاکستان میں خواتین کو مختلف جرائم کے خلاف جامع تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایسی قانون سازی کی گئی ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کے بارے میں وسیع تر ابہام اور غلط فہمیاں اسلامی احکام کی کم فہمی اور غلط تشریح کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ قرآن کی آیات گہری تفہیم اور تجزیہ کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ قانون کے طلباء، قانون کے ماہرین اور مجموعی طور پر مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو اس تناظر میں سیکھیں جس میں یہ دی گئی ہیں ، اس سلسلے میں آگہی  پیدا کریں اور باخبر فیصلے مرتب کریں۔

مسلم معاشروں میں مغربی افکار کے اثرات اور ان کو مسلط کیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام خواتین کو اپنے  ہر  حق کے لیے تحریک چلانے اور ان کے حقوق کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کسی دوسری قوم یا نظریے کو مسلمان خواتین پر حکم چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اسلام بذات خود ایک مکمل ضابطہ ہے جو مغرب کی کسی تشریح پر منحصر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید زور دیا کہ اسلام مسلمانوں کے لیے معذرت خواہانہ یا رجعت پسندی پر مبنی رویوں کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اس کے بجائے، انہیں صورت حال کا گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کہاں کھڑے ہیں، شرعی قانون کو صحیح معنوں میں وضع  اور نافذ کرنا چاہیے، اور خواتین کے ساتھ اچھےبرتاؤ کے ذریعے دنیا کو اسلام کے حقیقی معنی سکھانے اور معاشرے میں اچھے اور مثبت اثرات پیدا کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینی چاہِیے۔

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی  کی  ڈین فیکلٹی آف لاء، کامرس مینجمنٹ، اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز ڈاکٹر عذرا یاسمین نے قانون کی طالبات کے تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ طلباء کو اپنے علم کو بڑھانا چاہیے، سوال کرنا سیکھنا چاہیے اور مستقبل میں معاشرے میں تعمیری تبدیلی لانے کے لیے مسائل کو منطقی طور پر سمجھنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے