پاکستانی میڈیا میں چٹز پیڈک ایڈورٹائزنگ کی حکمتِ عملی

پاکستانی میڈیا میں چٹز پیڈک ایڈورٹائزنگ کی حکمتِ عملی

چٹز پیڈک ایڈورٹائزنگ: مثبت سماجی تبدیلی کے لیے سول سوسائٹی کا کردار اہم ہے

 

مثبت سماجی تبدیلی لانے اور چٹز پیڈک اشتہارات کے چیلنجوں سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے سول سوسائٹی کا ایک فعال کردار، شہری پر مبنی اشتہاری معیارات کا ادارہ، اور اشتہار کی اخلاقیات کے حوالے سے ایک وسیع قانونی مظہر بہت ضروری ہے۔

یہ گفتگو 15 مارچ 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس )کے زیر اہتمام  ایک مباحثے کے دوران کی گئی جس کا عنوان تھا’ چٹز پیڈک ایڈورٹائزنگ سٹریٹیجیزان پاکستانی میڈیا : امپیکٹ آن سوسائٹی‘۔

اس مباحثے کی صدارت ڈاکٹر عصمت آرا، سربراہ ،شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی نے کی۔خطاب کرنے والوں میں طلحہ شور والا، برانڈ اسٹریٹجسٹ اور میڈیا کنسلٹنٹ؛ کاشف ایچ صدیقی، سی ای او، پلس کنسلٹنٹ؛ ڈاکٹر صفدر اے سہیل، سابق ڈین ،نیشنل سکول آف پبلک پالیسی؛ ڈاکٹر صائمہ اسما، ٹیچر اور ٹرینر میڈیا اسٹڈیز؛ سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی کابینہ سیکرٹری، شہزاد اقبال شام، سینئر ریسرچ فیلو، آئی پی ایس؛ اور خالد رحمٰن، چیئرمین آئی پی ایس شامل تھے۔

طلحہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ترقی پسند ایجنڈے کو پھیلانے کے لیے ،چٹز پیڈک اشتہارات ابلاغ عامہ کا ایک طاقتور ذریعہ بن رہے ہیں۔نیز، اب اشتہارات حقائق کی بجائے توقعات کو پورا کرنے کے خواب دکھانے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ رجحان پاکستان کی اشتہاری صنعت میں تیزی سے بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو کہ ایتھوس، پیتھوس اور لوگو کے فنکارانہ اظہار کے ساتھ ملک کے سماجی تانے بانے کو متاثر کررہا  ہے۔

اشتہاربازی کے ذریعےمیڈیا کی یہ حکمت عملی معاشرے کی ساکھ، شعور اور جذبات میں کشش پیدا کر کےسماجی اثرات  مرتب کرنے کا عمل آسان بناتی ہے۔ اگرچہ اس سے معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی رویے  متاثرہوتے ہیں،تاہم اگر انہیں کمال ہوشیاری سے تیار کیا گیا ہو تو ان مہمات کے مثبت اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

کاشف صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا  کو دیکھا جائے تووہاں بھی  وہی ذہنیت کارفرما ہے جو کسی بھی اشتہار یا برانڈ مہم کے پیچھے برانڈ کے محافظوں اور تخلیقی ایجنسیوں کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر سماجی اصولوں سے ناواقف اور معاشرے پر اس کے اثرات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔

صائمہ اسماء نے اپنامشاہدہ  بیان کرتے ہوئے کہاکہ حساس موضوعات پر شدید پولرائزیشن، ایم این سیزکی متضاد اقدار، اور ثقافتی اقدار سے ان کی بے حسی بھی پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں مروجہ مسائل ہیں۔

ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے، انہوں نے اشتہاری اخلاقیات کے حوالہ سے قانون کے وسیع  دائرہ کار پرزور دیا۔ مزید یہ کہ، یہ اخلاقیات صرف معیارینمونے پر مرکوز نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بجائے،  اس میں سائنسی پیشرفت سے موافقت اور ضرورت کے مطابق  ڈھل جانے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔

صفدر سہیل نے کہا کہ اشتہارات شعوری تبدیلی پربنیادی اثر ڈالتے ہیں جس سے صارفیت پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے کو صارفیت اور اس کے اثرات سے دور کرنے کے لیے سماجی پالیسی کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا، شعور کو تقویت دینا، اور بنیادی اقدار کے لیے سماجی تحریک کا آغاز کرنا ضروری ہے۔

چونکہ موجودہ میڈیا اور ایڈورٹائزنگ پالیسیاں عطیہ دہندگان اور فنڈنگ سے چلتی ہیں، اس لیےسوچ کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کراشتہار کی معیاری تیاری کے لیے ایک اتھارٹی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ۔سید عاکف نے کہا کہ اس طرح کے ادارے کی بنیاد شہریوں کے نقطہ نظر سے ہونی چاہیے، جہاں شہری اپنی شکایات درج کر سکیں۔

ڈاکٹر عاصمہ نے مثبت اثرات مرتب کرنے کے لیے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ تبدیلی سول سوسائٹی کے فعال کردار سے لائی جا سکتی ہے جو مسائل سے آگاہ ہے، جو کچھ اصولوں کے خلاف ہو رہا ہے اس سے آگاہ ہے، اور کمیونٹیز کے طرز عمل پر منفی یا مثبت اثرات کے مطابق اس کا جائزہ لینے کے قابل ہے۔

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مختلف ٹیکنالوجیز اور آلات نے میڈیا کو طاقتور بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس سے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اس صنعت کو ہی چیلنج کرنے کی بجائے،مواقع کو منافع بخش نتائج میں تبدیل کرنے کے لیے صلاحیت کی تعمیر  پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ میڈیا کےبارے میں اس طرح کے خدشات کو الگ تھلگ کر کےدور نہیں کیا جا سکتا۔ بحث کو دیگر عوامل سمیت بڑے کینوس پربھی سمجھنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے