موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے پہلے تیس ماہ پر ماہرین کا جائزہ

موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے پہلے تیس ماہ پر ماہرین کا جائزہ

  آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور سابق سفیر  تجمل الطاف نےاقتدار میں آنے کے بعد سے پی ٹی آئی حکومت  کی عالمی اور علاقائی محاذوں پر کارکردگی کا جائزہ 13 جولائی 2021 کو  آئی پی ایس میں منعقدہ ایک اجلاس میں پیش کیا جس کا عنوان تھا ’گذشتہ 30 ماہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا طرزِ عمل‘۔

 first-thirty-months-of-incumbent-governments-foreign-policy

  آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور سابق سفیر  تجمل الطاف نےاقتدار میں آنے کے بعد سے پی ٹی آئی حکومت  کی عالمی اور علاقائی محاذوں پر کارکردگی کا جائزہ 13 جولائی 2021 کو  آئی پی ایس میں منعقدہ ایک اجلاس میں پیش کیا جس کا عنوان تھا ’گذشتہ 30 ماہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا طرزِ عمل‘۔

اجلاس سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین نے بھی خطاب کیا۔

خارجہ پالیسی کے نفاذ کے لیے درکارآلہ کاروں پر روشنی ڈالتے ہوئے  سابق سفیر نے بتایا کہ  اس عمل میں 5400 اہلکار شامل تھے اور پوری دنیا میں پاکستان کے صرف 87 سفارت خانوں اور 27 قونصل خانوں میں کام ہو رہا تھا۔ ان 87 سفارتخانوں میں سے 59 سفارتخانوں کے پاس گریڈ 17 سے 22 کے صرف ایک سے تین اہلکار موجود تھے جن کی تعداد یہ بتاتی ہے کہ  سفارت خانوں کی اس کمی سے  خارجہ پالیسی کے فیصلوں پر  کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔

سابق سفیر نے مذکورہ مدت کے دوران حکومت پاکستان کی جانب سے افریقہ میں پانچ نئے سفارت خانوں کے افتتاح کو سراہا۔ تاہم ، انہوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ ترکمانستان ، شمالی کوریا اور ہندوستان سمیت اہم ممالک میں یا تو کوئی پاکستانی سفارت خانہ موجود نہیں ہے یا پھر ان میں سفیروں کی کمی ہے۔

خارجہ پالیسی کے طرزِ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے تجمل الطاف نے اپنا موقف بیان کیا کہ پارلیمنٹ اور تمام متعلقہ فریقین نے خارجہ پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا کیا اور ان امور پر کھلے عام بحث کی جن سے ملک کو عالمی سطح پر سامنا ہے۔ اس سلسلے میں  انہوں نے خاص طور پر مارچ 2019 میں منعقدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا تذکرہ کیا ،  جس میں  اراکین پارلیمنٹ نے وزیر خارجہ سےاو آئی سی  اجلاس میں سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مدعو کرنے کے خلاف احتجاج  کے طور پر اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

سابق سفیر کے مطابق، پی ٹی آئی کی زیرِ قیادت حکومت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے مؤقف پر ترکی اور ملائیشیا جیسے اہم دوستوں کی سفارتی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جیسا کہ ترک صدر اردگان اور  ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کے مظالم اور ارتکاب جرم پر کھلے عام   گفتگو کی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں کشمیر کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کے لیے خصوصی مشاورتی اجلاس بھی ہوئے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ نے مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں دو رپورٹیں بھی شائع کیں۔

اجلاس میں یہ مشاہدہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس مدت میں مجموعی خارجہ پالیسی پر مربوط حکمت عملی  بنانے سے قاصر رہی  اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سےدکھاوے کے  اقدامات کو زیادہ ترجیح دی جاتی رہی۔

مقررین نے نئے سفارت خانوں کو کھولنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کیونکہ نصف ممالک میں پاکستان کا سفارت خانہ / قونصل خانہ موجود نہیں ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے