پاکستان میں انسانی حقوق کی نگرانی اور نفاذ کے لیے قانونی اور انتظامی فریم ورک

پاکستان میں انسانی حقوق کی نگرانی اور نفاذ کے لیے قانونی اور انتظامی فریم ورک

انسانی حقوق کے فروغ کے لیے قوانین پر عمل درآمد اور مضبوط ادارے ناگزیر ہیں:ممبر  این سی آر سی

انسانی حقوق کا تحفظ اور ان کی پاسداری کو یقینی بنانا ریاست اور اس کے اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مؤثر قوانین اور ان کا نفاذ، بنیادی سہولیات اور خدمات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ  سرکاری محکموں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور سماجی تنظیموں کی استعداد کار میں اضافے کے ذریعے ہر سطح پر ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔

یہ بات بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن (این سی آر سی) کے سینئر ممبر خالد نعیم نے 6 مارچ 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  اسلام آباد میں ‘پاکستان میں انسانی حقوق کی نگرانی اور نفاذ کے لیے قانونی اور انتظامی ڈھانچہ’ کے عنوان سے منعقدہ نشست کے دوران کہی۔

اس نشست میں سید ندیم فرحت، ریسرچ فیلو، آئی پی ایس، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ، آئی پی ایس، ڈاکٹر یاسر امان، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سحرش صبا راجہ ایڈووکیٹ، اور دیگر نے شرکت کی۔

یہ نشست آئی پی ایس میں قائم سماجی امور سے متعلق قانون سازی کے جائزہ گروپ کے تحت جاری سلسلے کا حصہ تھی۔ اس گروپ کا مقصد تجزیات اور مباحثے کے ذریعے ملک میں ایسے قوانین کی تشکیل کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہے جو مقامی مزاج اور سماجی اقدار سے ہم آہنگ ہوں ۔

بنیادی انسانی حقوق جیسے کہ ذاتی تحفظ، آزادی ٔاظہار اور سماجی و اقتصادی حقوق پر زور دیتے ہوئے جناب خالد نعیم نے اسلامی اصولوں اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے درمیان مطابقت پر زور دیا، تاکہ  پاکستانی معاشرے میں حقوق اور ذمہ داریوں کی جامع تفہیم کو تقویت ملے اور ملک میں بین الاقوامی معاہدات کے مطابق ہونے والی قانون سازی کسی سماجی تقسیم یا  عدم ہم آہنگی کا باعث نہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مختلف سرکاری اداروں جیسے کہ سپریم کورٹ کا انسانی حقوق سے متعلق سیل، وزارتِ انسانی حقوق، اور انسانی حقوق کے صوبائی محکموں کا کردار اہم ہے۔

انسانی حقوق کے لیے 2016ء کے ایکشن پلان کے نفاذ کے لیے اہم پہلوؤں کا تعارف پیش کرتے ہوئے مقرر نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت قانونی اور پالیسی اصلاحات، آگاہی اور تعلیم، اداروں کی مضبوطی، اور مؤثر نگرانی کے نظام کی تشکیل شامل ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں بچوں کے حقوق کے نفاذ کے حوالے سے انہوں نے این سی آر سی کی جانب سے اسٹریٹجک پلانز اور پالیسی بریف تیار کرنے کے حالیہ اقدامات کا حوالہ دیا۔

جناب خالد نعیم نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے فروغ کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کی مقامی تشریح، ان کے مطابق قانون سازی اور بامعنی نفاذ کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون سازی میں اصلاحات، عوامی شعور کی بیداری اور حکومتی سطح پر اقدامات کے لیے مسلسل توجہ دلانے سمیت وہ تمام وسائل بروے کار لانے ہوں گے جن سے انسانی زندگی کو حاصل عزت و تکریم بلا تفریق ہر ایک کو حاصل ہو سکے ۔

مزید برآں، انسانی حقوق سے متعلق پارلیمانی کمیٹیوں کے کردار اور نگرانی کو بڑھانے، باقاعدہ جائزے کا اہتمام کرنے اور متعلقہ قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کے طریقِ کار اور تقاضوں کے مطابق انسانی حقوق کی مسلسل رپورٹنگ کو یقینی بنانا پیش رفت کے جائزے اور مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے ۔

بچوں کے حقوق سے متعلق بالخصوص بات کرتے ہوئے مقرر نے کہا کہ اسکولوں میں ہر بچے کے اندراج کو یقینی بنانے اور نئی نسل  میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھیک منگوانے، منشیات کے استعمال، بدسلوکی، بچوں سے مشقت کروانے، اسمگلنگ، اور بچوں کے خلاف آن لائن جرائم جیسے اہم مسائل کو حل کرنا حکومتی اور معاشرتی سطح پر ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔

مزید برآں، بچوں سے متعلق مسائل پر حکومتی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور سماجی شعبے میں کام کرنے والے افراد اورتنظیموں کی آگاہی اور صلاحیتِ کار میں اضافہ بچوں کے تحفظ اور قوم کے بہتر مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ انسانی اور بچوں کے حقوق کی جامع تعلیم کو ہر سطح پر تعلیمی نصاب میں سمونا آنے والی نسلوں میں بنیادی حقوق کے لیے بیداری اور احترام کی ثقافت کو فروغ دے گا۔

اختتامی کلمات میں، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے کہا کہ پاکستان کو انسانی اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم رہنا چاہیے تاکہ ایک ایسے ماحول کو یقینی بنایا جا سکے جہاں ہر بچے کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ان کی ترقی میں کردار ادا کیا جائے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے