ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 میں ابہام معاشرےاور متعلقہ افراد کے لیے نقصان دہ ہے: گول میز اجلاس

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 میں ابہام معاشرےاور متعلقہ افراد کے لیے نقصان دہ ہے: گول میز اجلاس

اسلام آباد، 30 جون، 2022: مخنث افراد کے حوالے سے پاکستان میں قانون سازی نے ملک میں اس صنف کی پسماندہ آبادی کو حقوق دینے کی بجائے ابہام اور افراتفری پیدا کی ہے۔ ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ،  2018 میں مقامی حقائق، ثقافتی اثرات، اور یہاں تک کہ انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھے بغیر قانون سازی کی گئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار 27 جون 2022 کو شیبانی فاؤنڈیشن اور نیشنل لاء کالج راولپنڈی کے اشتراک سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) اسلام آباد میں ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں کیا گیا جو  2018 کی اس قانون سازی کے حوالہ سے منعقد ہو ا۔

اس اجلاس کی نظامت ندیم فرحت گیلانی، سینئر ریسرچ آفیسر آئی پی ایس نے کی، جب کہ اس میں ایڈووکیٹ عبدالرحمن، سینیٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر نوید بٹ، فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال کے ایسوسی ایٹ فزیشن، ڈاکٹر عروج ارشد، اپلائیڈ سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی اسکالر، ندیم کشش، معروف ٹرانس جینڈر کارکن، صفدر حیات، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، پروفیسر آف لاء، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد (IIUI)، ڈاکٹر انعام اللہ، ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ)، اسلامی نظریاتی کونسل (CII) ، ڈاکٹر عطا اللہ وٹو، نیشنل لاء کالج، اور خالد رحمان، چیئرمین آئی پی ایس شامل تھے۔

ماہرین کے متنوع گروپ نے قانونی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں سے قانون اور اس قانون سازی سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ اس معاملے کے طبی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی بحث کی گئی۔

اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ خود شناسی کی بنیاد پر صنفی شناخت کا حق اس قانون کی سب سے بڑی خامی ہے اورسماجی سطح پر اس کے منفی اثرات ابھی سے نظر آنے لگ گئے ہیں۔ نیز یہ شق ملک کے قانونی ڈھانچے کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اسلام میں ان افراد سے متعلق تفصیلی ہدایات موجود ہیں جو اپنی جنس سے متعلق ابہام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی جنس اور حقوق کواسلام میں مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد ان کی بہبوداور ان کے حقوق کی حفاظت کرنا اور  عام زندگی میں ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کی فعال شرکت کو یقینی بنانا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود، پاکستان میں قانون ان احکامات کا سہارا لیے بغیر  اور مقامی سماج و ثقافت میں مبہم صنف کے افراد کے حالت  کو سامنے رکھے بغیر نافذ کیا گیا ہے۔ اپنی موجودہ شکل میں، یہ قانون ہم جنس پرستی کی مغربی مہم کے مقاصد کو پورا کررہاہے اور بدنام زمانہ گرو کلچرسمیت  ان افراد کی زندگیوں کو اذیت پہنچانے والے عوامل کو پاکستان میں ختم کرنے میں ناکام ہے۔

شرکاء نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ عدالتوں میں متعدد درخواستیں زیر التوا ہیں جن میں ایکٹ کو مختلف پہلوؤں  سے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سے معاشرے کے مختلف طبقات میں اس موضوع پر واضح تقسیم پہلے سے ہی نظر آتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی خواجہ سراؤں کی موجودہ تعریف پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے شریعت اور قانون کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ کونسل نے ایک ایسے قانون کے لیے سفارشات بھی دی ہیں جس میں مخنث ا فرد کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

ذاتی خواہش کے  تحت کسی کو صنفی شناخت کی آزادی دینا بجائے خود ایک بڑی الجھن پر مبنی تصور ہے۔ یہ نہ صرف اسلام سمیت تمام مذاہب کے لیے براہ راست چیلنج  ہے بلکہ انسانیت اور معاشرے کی بنیادوں کومجروح کرتا ہے۔  یہ چیلنج مغرب کے سامراجی  ایجنڈے  کی ایک کڑی ہے جو دیگر تمام ثقافتوں، تہذیبوں اور افکار پر غالب آنا چاہتا ہے۔ انسانی حقوق کے پرفریب عنوان کو اسلامی اور دیگر ایشیائی اور افریقی ثقافتوں پر یلغار کرنے کے لیے مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل سائنسز کے ایک پروفیسر نے  اجلاس میں  زور دیتے ہوئے کہا کہ، ”مغرب، ایک طرف، اپنی حال ہی میں دریافت شدہ ’اقدار‘ کے لیے بھی آفاقیت پر زور دیتا ہے اور دوسری طرف مابعد جدیدیت کے نام پر فکری اور سماجی انتشار کو فروغ دے رہا ہے“۔

نفسیات اور طب کے شعبوں کے پریکٹیشنرز نے بتایا کہ کسی فرد کی حقیقی جنس کا پتہ لگانے اور صنفی متغیر شخص کو مرکزی دھارے میں بہتر طور پر ضم کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیےجامع طریقہ کاراور رہنما اصول موجود ہیں۔ جنس اور صنف کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کا تصور پہلے ہی مغربی معاشروں میں سنگین سوالات کو جنم دے چکاہے۔ ایک شریک نے کہا کہ اس تصور نے انسانوں کو ذاتی شناخت دی نہیں بلکہ انسانوں سےہر طرح کی شناخت چھین لی ہے۔

بحث میں آگاہی کی کمی کو درست نقطۂ نظر کو فروغ دینے اور اسےاپنانے میں ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا گیا۔ پارلیمنٹ کے ارکان نہ صرف تصویر کے دوسرے رخ سے ناواقف ہیں بلکہ انہیں اس بات کی بھی زیادہ فکر نہیں ہے کہ مسلط کردہ قانون سازی سے معاشرے کو کیا منتقل ہو گا۔ دوسری طرف عوام اس تباہی سے بالکل بے خبر ہیں جواس ایکٹ کی شکل میں  سماجی، ثقافتی اور تہذیبی ڈھانچے کودرپیش ہے۔

 اجلاس میں اس طرف توجہ دلائی گئی کہ صنفی متغیر افراد کوخاندان کی قربت اور محبت  کےذریعےمعاشرے میں  ان کےحقوق اور مفادات کے تحفظ کا یقین دلایا جائے اور انہیں درپیش مسائل کی نشاندہی کے  لیے مقامی انداز پر سوچ کی ضرورت کو اجاگرکیا جائے۔  تاہم اس مقصد کے لیے سائنسی  بنیاد پروضع کردہ حل اور علمی بنیاد پر تشکیل دیے گئےبیانیے کی ضرورت ہے۔ اس سے پالیسی سازوں کواس تصور کی پیچیدگی کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، جو کہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف کسی ایک قانون یا موضوع کی تعریف تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق زندگی کے متضادرویوں میں بکھرے ہوئے پہلوؤں سے ہے۔انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عوامی بیداری، نیٹ ورکنگ، تعاون اور دانشوروں کے کردارکی اہمیت  پر زور دیا اوراسے  بدلتے ہوئے عالمی ماحول  کے تناظر میں دیکھنے  پر توجہ دلائی ۔ انہوں نے اس سلسلے میں متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نےاجلاس کا اختتام کرتے ہوئےکہا کہ صنفی متغیر افراد کے حقوق کے معاملے کو ایک ایسے خلا سے بچنے کے لیے فعال طور پر اٹھایا جانا چاہیے جو ہماری ثقافتوں میں سماجی انجینئرنگ  کا راستہ کھول دے گا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے