مغربی ذرائع ابلاغ مسلانوں کی منفی تصویر کشی کر کے اسلامو فوبیا کو ہوا دے رہے ہیں: لارین بوتھ

مغربی ذرائع ابلاغ مسلانوں کی منفی تصویر کشی کر کے اسلامو فوبیا کو ہوا دے رہے ہیں: لارین بوتھ

مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کی مسلسل منفی تصویر کشی کر کے ان کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں اور اسلاموفوبیا کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اس صورتحال کی وجہ سے مغرب میں مسلمانوں کی زندگی مشکلات سے دوچار ہے اور وہ اپنے بچوں، بالخصوص لڑکیوں کو حفاظت کی غرض سے سیلف ڈیفنس کے طریقے سکھنانے پر مجبور ہیں۔

یہ بات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ایک لیکچر کے دوران ممتاز نومسلم صحافی، براڈکاسٹر ،اینکر پرسن اور کتاب ‘مقدس سرزمین میں امن کی تلاش’ کی مصنفہ محترمہ لورن بوتھ نے ‘اسلام اور مغرب: فاصلوں کا خاتمہ’ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اپریل 30، 2019 کوکہی.

ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو تشدد کے سامنے اپنے عقیدے سے پیچھے نہیں ہٹنا ہے بلکہ اسے اور مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔

انہوں نے تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح کے بار بار استعمال کی مخالفت کی اور کہا کہ تہذیبوں میں تصادم اسلام کا کبھی بھی مقصد نہیں رہا بلکہ وہ انہیں بلند سطح پر لے جاکر بہتر بنانا چاہتا ہے ۔

انہوں نے موجودہ پروپیگنڈے کے برخلاف کہا کہ مذہبِ اسلام جدیدیت سے منع نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اسے جِلا بخشتا ہے ۔

محترمہ نے عالمی سطح پر معروف مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے مسلمانوں کی تاریک تصویرکشی پیش کرنے کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ کارٹون حتیٰ کہ ویڈیو گیمز بھی نفرت بھرا پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مغربی میڈیا کی جانب سے حقائق کے خلاف مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کی کئی مثالیں پیش کیں۔

محترمہ لورن بوتھ نے کہا کہ مغرب میں عام آدمی اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات سے محروم ہے کیوںکہ ان کے سامنے سچائی کو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا ، بلکہ کہانیاں گھڑنے کے ماہرین کی جانب سے ان کو مذہب کا غلط تصور فروخت کیا جارہا ہے۔

محترمہ نے اپنے بیانیہ کی حمایت میں کئ مثالیں پیش کیں بالخصوص فلسطین کے تباہ شدہ علاقوں کے بچوں کے لیے گئے اپنے ایک انٹرویو کا تذکرہ کیا جس میں بچوں نے ڈاکٹر ٹیچر اور ماہرنفسیات بننے کی خواہش ظاہر کی تاکہ وہ اپنے لوگوں کی خدمت کر سکے لیکن بعدازاں اس انٹرویو کی تصویر کو ایک بالکل متضاد طریقے کے ساتھ شائع کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا گیا کہ ان میں سے کون سا بچہ ڈاکٹر بنے گا اور کون سا دہشت گرد؟ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان میں سے کسی بھی بچے نے دہشت گردی، انتہا پسندی یا انتقام کی بات تک نہیں کی تھی ۔

انھوں نے اس حوالے سے مغربی ذرائع ابلاغ کے اہم اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے والے دیگر مضامین کا حوالہ بھی دیا جس میں ایک مصنف نے کہا کہ "مجھے فخر ہے کہ میں اسلامو فوبک ہوں”،  جبکہ ایک اور مضمون میں مصنف نے کہا کہ "جب تک مسلمان اپنی تصحیح نہیں کرتے انھیں سزا ملنی چاہیے”۔

محترمہ لارین بوتھ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ انہیں ایسے افراد تیار کرنے چاہیے جو عالمی سطح پر عوام کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیمات کو پیش کرسکیں اور ہمیں مسلمان بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اسلام کو درست طور پر سمجھ کر انسانیت کے لئے ایک بہترین نظام زندگی کے طور پر پیش کر سکیں ۔

قبل ازیں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ اسلامی دنیا اور مغرب کو آپس میں تعاون کی فضا قاِئم کرنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے