‘دینی مدارس میں روایت اور معاصرت: جدید رجحانات’

‘دینی مدارس میں روایت اور معاصرت: جدید رجحانات’

مدارس میں جدید تعلیمی رجحانات خوش آئند ہیں: اسلامی نظریاتی کونسل میں سیمینار سے بیرسٹر ظفراللہ، ڈاکٹر قبلہ ایاز اور دیگر مقررین کا خطاب

 Tradition-and-Contemporaries-in-Islamic-schools-Madaris

مدارس میں جدید تعلیمی رجحانات خوش آئند ہیں: اسلامی نظریاتی کونسل میں سیمینار سے بیرسٹر ظفراللہ، ڈاکٹر قبلہ ایاز اور دیگر مقررین کا خطاب

پاکستان میں دینی مدارس اس وقت ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہے ہیں اور یہ تبدیلی بڑی حد تک خوش آئند ہے۔ مدارس میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انہیں بدلتے ہوئے معاشرے اور معاشرتی اقدار کے مطابق اپنی روایات سے وابستہ رہتے ہوئے اپنے لیے نیا کردار تراشنا ہوگا۔ تاہم اس وقت انہیں انتشار اور تقسیم سے بچنے کے لیے غیر معمولی حکمت اور یگانگت کی بھی ضرورت ہے۔  

ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل، انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور دار العلوم و التحقیق کراچی کے اشتراک سے 15 دسمبر 2021 کو ہونے والے سیمینار میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ‘دینی مدارس میں روایت اور معاصرت: جدید رجحانات’۔ اس موقع پر ممتاز ماہرِ تعلیم اور سیرت نگار ڈاکٹر سید عزیز الرحمان کی تازہ تصنیف ‘دینی مدارس بدلتے ہوئے زمانے میں’ کی تقریب رونمائی بھی کی گئی۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل میں ہونے والی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان تھے جبکہ دیگر مقررین میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  کے وائس چئیرمین اور سابق سفیر سید ابرار حسین، آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن ڈاکٹر نزیر احمد وید،  ممتاز ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سید عزیز الرحمان اوراسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر اکرام الحق یاسین شامل تھے۔ 

مہمان خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دینی تعلیم کو وقت سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مسلکی معاملات سے بلند تر ہونا بھی ضروری ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ طرزِ تدریس میں تحقیق کا پہلو زیادہ اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ علوم قدیم و جدید کے طالب علم کو قدیم اور جدید روایات اور تاریخ سے آشنائی ملنی چاہیے۔  

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ دینی مدارس میں روایت اور معاصرت کا سلسلہ طویل ہے اور اس میں جدید رجحانات کا رنگ نمایاں ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دینی مدارس میں طرزِ تدریس کے حوالے سے جذباتیت کے بجائے علمی اورعقلی دلائل کی روشنی میں بات ہونی چاہیے۔ 

ڈاکٹر نزیر احمد وید نے ان جدید رجحانات کا تذکرہ کیا جن کے ذریعے بعض دینی مدارس نہ صرف جدید علوم اور ٹیکنا لوجی میں پیش رفت کر رہے ہیں بلکہ بین الاقوامی شناخت بھی پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ذکر کیا کہ کراچی کے ایک بڑے مدرسے میں پچاس سے زائد ممالک کے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جو اپنے اپنے معاشروں میں پاکستان کے بہترین سفیر ثابت ہوتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے ایک مدرسے کے طلبہ نے روبوٹکس کے میدان میں قابلِ قدر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے نیا باب رقم کیا ہے۔ بعض مدارس میں اے لیول اور او لیول کی تعلیم بھی دی جارہی ہے جب کہ طلبہ و طالبات کی ہمہ گیر ترقی اور شخصیت سازی کے لیے نت نئے اقدامات نظر آرہے ہیں۔ 

ڈاکٹر سید عزیز الرحمان نے بتایا کہ دینی مدارس میں معاشرے سے ہم آہنگ رہنے کی سوچ ہمیشہ موجود رہی ہے تاہم روایت سے مضبوط وابستگی کے ساتھ نئے رجحانات کو اپنانے کا یہ عمل فطری طور پر سست رفتار اور بتدریج ہے۔ ایک طرف درس نظامی اور اس کی تدریس کے انداز میں تبدیلی آرہی ہے جب کہ دوسری طرف مدرسے کے عمومی ماحول اور مزاج میں ترامیم کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ تاہم یہ خیال کرنا درست نہیں ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے فرد کو سائنس، ٹیکنا لوجی اور دیگر علوم کی صلاحیت بھی لازماً حاصل کرنی چاہیے۔ دینی تعلیم کے حصول کا اصل اور بنیادی مقصد ہمیشہ سے علم اور دانائی کے حصول کے ذریعے معاشرتی تربیت رہا ہے۔ ایسے میں اہلِ مدرسہ میں اس سوچ کا پیدا ہونا تو مفید ہے کہ دینی تعلیم کو ان کی کمائی کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے لیکن روزگار کا حصول ہمیشہ ایک ثانوی ہدف ہی رہنا چاہیے۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر اکرام الحق یاسین نے دینی مدارس کے گراں قدر کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انگریز کے دور میں مدارس کو معاشی اور انتظامی معاملات سے دور رکھا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالم کو ایک اچھا داعی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا ایک متحرک شخص بھی ہونا چاہیے۔ 

انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے وائس چیرمین سید ابرار حسین نے کہا کہ دینی مدارس کے کردار کے تعین میں ایک بڑا حصہ پاکستانی حکومت کا بھی رہا ہے۔ حکومتوں نے مدارس اور اہلِ مدارس کو ہمیشہ سلامتی اور امن و امان کے تناظر میں دیکھا ہے نہ کہ تعلیمی اداروں کے طور پر۔ دینی مدارس اور مسالک کے درمیان بہتر ہم آہنگی کے ذریعے اس نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

سیمینار میں علماء، اساتذہ، سماجی کارکنان اوت نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے