‘پی وی بیسڈ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن میں تھرڈ پارٹی شمولیت کے فریم ورک اور بزنس ماڈلز کے امکانات

‘پی وی بیسڈ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن میں تھرڈ پارٹی شمولیت کے فریم ورک اور بزنس ماڈلز کے امکانات

سولر پی وی پر مبنی آزادانہ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن پاکستان کے لیے وقت کی ضرورت ہے: ماہرینِ توانائی

Prospects-of-Third-Party-Intervention-Framework

 سولر پی وی پر مبنی آزادانہ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن پاکستان کے لیے وقت کی ضرورت ہے: ماہرینِ توانائی

 ملک میں سولر بیسڈ ڈسٹریبیوٹڈ جنریش کی ترویج کے لیے ضروری ہے کہ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ کے فروغ ، مالیاتی اداروں کے نظام میں بہتری اور پاور پرچیز ایگریمنٹ [پی پی اے] سے متعلقہ معاہدوں کی حوصلہ افزائ کرنے جیسے فوری  اقدامات کر کے تھرڈ پارٹی نِجی تنظیموں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایک سازگار ماحول تشکیل دیا جائے اور ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائَے۔ 

ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس]، اسلام آباد میں 30 اپریل 2021 کو ہونے والی ایک مشاورتی نشست میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ‘پی وی بیسڈ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن میں تھرڈ پارٹی شمولیت کے فریم ورک اور بزنس ماڈلز کے امکانات’۔ اس نشست کا مقصد کمرشل اور انڈسٹریل پاور سیکٹر صارفین کے لیے پی وی بیسڈ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مختلف کاروباری ماڈلز پر اظہارِ خیال کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا تھا۔ 

سابق وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن کی صدارت اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چئیرمین خالد رحمٰن کی شریک صدارت میں ہونے والی اس مشاورتی نشست سے جن توانائ ماہرین نے خطاب کیا ان میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی [نیپرا] کے قابلِ تجدید توانائ کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر عرفان یوسف، نیپرا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ ڈویلیپمنٹ ڈاکٹر بلال مسعود، پاکستان جرمنی رینیوایبل انرجی فورم سے محمد سعید، سارک انرجی سینٹر سے محمد علی قریشی اور انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے توانائ ڈیسک سے تحقیق کار حمزہ نعیم شامل تھے۔ 

ماہرین کا خیال تھا کہ مہنگے ٹیرف اور لوڈ شیڈنگ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ توانائ کے متبادل ذرائع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ملک میں سولر پی وی پر مبنی ڈسٹریبیوٹد جنریشن کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے نیپرا کو پی پی اے بزنس ماڈلز کو ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انسٹال کی جانے والے توانائ کی استعداد کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ 

نشست میں اس بات پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا کہ حکومت پی پی اے ماڈل کے تحت کام کرنے والی چھوٹی اور درمیانے درجے کی تنظیموں [ایس ایم ای] کو کوئ سبسڈی نہیں دے رہی جبکہ یہ ملک میں پاور جنریشن کی ترقی کے لیے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ 

ماہرین کے خیال میں اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک رینیوایبل فنانس کے تحت آسان قرضے، گرانٹس اور کریڈٹ اسکیمیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کی انسٹالیشنز کے لیے فیڈ اِن ٹیرف متعارف کروائے جا سکتے ہیں۔

البتہ ماہرین اس بات پر متفق تھے کے ملک کا موجودہ توانائ سیکٹر فی الوقت اتنی مشکلات سے دوچار ہے کہ اس قسم کے کوئ بھی ٹھوس اقدامات کرنے سے پہلے ان سب تصورات اور آئیڈیاز کا ایک محتاط مطالعہ کرنے کی ضرورت مقدم ہو گی۔

IPS PR 30042021 1 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے