’ربا پر فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ: عملدرآمد کیسے‘

’ربا پر فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ: عملدرآمد کیسے‘

مالیاتی شعبہ سود سے پاک خدمات فراہم کرنے کے قابل ہے؛ ایف ایس سی کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قومی حکمتِ عملی، سیاسی منشاء درکار ہے: سیمینار

یہ سب کا مذہبی اور آئینی فرض ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو اسلام کے احکام کے مطابق سود سے پاک کرنے کا لائحہ عمل مرتب کریں اور اس پر عمل درآمد کریں۔ حکومتی قرضے لینے کے تمام شعبوں، بیرونی قرضوں، بینکنگ سیکٹر، نان بینکنگ سیکٹر، کیپیٹل مارکیٹ کے ساتھ ساتھ قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک میں اسٹریٹجک اور آپریشنل سطح پر تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

اس بات کا اظہار ”دامپلیمینٹنگ دی ایف ایس سی ججمنٹ آن ربا: ایڈریسنگ دی ہاو“ کے عنوان سے ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس کا انعقاد آئی پی ایس اور آئی بی اے-سی آئی ای ایف (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشنز سنٹر فار ایکسیلینس ان اسلامک فنانس )اور سنٹر آف اسلامک اکنامکس (جامعہ دارالعلوم، کراچی کا ایک ڈویژن) نے مشترکہ طور پر آئی بی اے سٹی کیمپس میں 18 جنوری 2023  کوکیا۔

اجلاس سے احمد علی صدیقی، ڈائریکٹر، آئی بی اے-سی آئی ای ایف؛ عمر مصطفی انصاری، سیکریٹری جنرل، اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن فار اسلامک فنانشل انسٹی ٹیوشنز (اے اے او آئی ایف آئی)؛ مفتی ارشاد احمد اعجاز، چیئرمین شریعہ ایڈوائزری کمیٹی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان؛، فرخ رضا، سی ای او، اسلامک فنانس ایڈوائزری اینڈ ایشورنس سروسز (آئی ایف اے اے ایس)گروپ؛ ڈاکٹر عمران عثمانی، وائس چیئرمین شریعہ سپروائزری بورڈ، میزان بینک؛ اور خالد رحمٰن ، چیئرمین، آئی پی ایس نے خطاب کیا۔

ماہرین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تمام مالیاتی اور متعلقہ شعبے پہلے سے ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ  موجودہ نظام میں موجود غیر اسلامی طریقۂ کار کومناسب طریقے اور وسائل کو تقویت دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کےذریعے اسلامی معیارات کے مطابق کر دیں۔

مقررین نے اس بات پرزور دیا کہ وفاقی حکومت کو سالانہ اہداف طے کر کے، تمام شعبوں کی مناسب نگرانی کے ساتھ تبدیلی کے عمل کی پالیسی وضع کرنی چاہیے۔ اس قومی سطح کی حکمت عملی کو تمام اسٹیک ہولڈرز کےساتھ اتفاق رائے پیدا کر کے ان کی شمولیت کے ساتھ تیار کیا جانا چاہیے تاکہ شریعت کے مطابق رہنما خطوط سے ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

حکومت کو تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کرکے، تعلیمی اصلاحات کو متعارف کرانے اور عہدیداروں کے لیے صلاحیت کار میں اضافہ کے اقدامات کے ذریعے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ قومی سطح کی حکمتِ عملی اور پالیسی کے ساتھ ساتھ سیکٹر -لیول پلاننگ بھی اہم ہے۔

فنٹیک، اسلامک سوشل فنانس کے ٹولز کے ساتھ مل کر، کریڈٹ تک رسائی، مالیاتی حفاظت کے نیٹ ورک، صارفین کے تحفظ، کراؤڈ فنڈنگ ماڈلز، اور مائیکرو فنانس اور انٹرپرینیورشپ کی ترقی کے ذریعے مالی شمولیت کے چیلنجوں کا حل فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ٹولز مثلاً قرض حسنہ ماڈل، مائیکرو تکافل، وقف، زکوٰۃ اور صدقات بھی نظام میں معاشی انصاف پیدا کر سکتے ہیں۔

مقررین نے نظام میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لیے بنیادی عوامل کو بیان کیا: ایک ایسا وژن جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے مشترکہ اور حمایت یافتہ ہو اور اس پرلوگوں کو بھروسہ ہو۔ سیاسی آمادگی اور ملکیت کا احساس؛ ایکشن پلان اور وسائل کے ساتھ متعین اہداف اور ان پر عملدرامد؛ قانون سازی اور جامع ریگولیٹری نگرانی اور اس کا نفاذ؛ اچھی حکمرانی؛ صلاحیت کار میں اضافہ؛ اور، ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے نظام کی ترقی۔

انہوں نے اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چونکہ تبدیلی کے حوالے سے لوگوں میں بیداری اور اعتماد کا فقدان اس مقصد کی وکالت کو کمزور کرتا ہے، اس لیے لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لیے ہر سطح پر رابطے کو برقرار رکھنا بھی سود سے پاک معیشت کے ہدف کے حصول کے لیے اتنا ہی ضروری ہے۔ انہوں نے اس کے بارے میں ہر سطح پر اور بھرپور گفتگو کرتے رہنےکی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ وضاحت رہے کہ اسلامی مالیاتی نظام معاشی مسائل کا حل فراہم کر سکتا ہے۔ یہ  انصاف فراہم کر سکتا ہے اور موجودہ نظام میں موجودخلا کو پر کرنے کے ساتھ، ہر انسانی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔

خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اقتصادی حرکیات کچھ تناظر میں چیلنجز پیش کر سکتی ہیں، لیکن بڑے تناظر میں یہ پاکستان کو ایک ایسی تبدیلی متعارف کروا کر نظام میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو موجودہ نظام میں موجودخلا کو پر کرے اور معاشی ضروریات کو پورا کرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی بینکاری میں تبدیلی معاشی نظام کے تمام شعبوں میں تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے اورجیسا کہ پاکستان ترقی کے راستے پرہے،  اس لیےان ترقیاتی تبدیلیوں کو اس سفر کا حصہ بنا سکتاہے۔

اس سلسلے میں تحفظ کا کلچر، نفاذ کے لیے سیاسی عزم، شفافیت، آئین سے وابستگی کا کلچر، معاشرے کی اخلاقی تربیت، علمی اور تعلیمی ذرائع سے اصلاحات، اور آئینی، بنیادی ڈھانچہ، ادارہ جاتی، نیزہر سطح کے آپریشنل کام وہ شعبے ہیں جنہیں نظام میں تبدیلی لانے کے لیے نتیجہ خیز بہتری کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے