کوئلہ: تھر سے گڈانی تک

coals1

کوئلہ: تھر سے گڈانی تک

 اگر مؤثر طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو تھرکول پاکستان میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں پورے کھیل کو پلٹ سکتا ہے۔ تاہم طاقت کے ستونوں میں نااہلی، بدعنوانی اور دلچسپی میں کمی اس انمول خزانے کی اہمیت کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ اس گفتگو کا نچوڑ ہے جو ۳دسمبر ۲۰۱۴ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار میں ہوئی۔ سیمینار کا موضوع تھا ’’کوئلہ: تھر سے گڈانی تک‘‘۔ اس پروگرام کی صدارت وزارت تیل و قدرتی وسائل کے سابق وفاقی وزیر عثمان امین الدین نے کی جبکہ پاکستان جیالوجیکل سروے کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرزا طالب حسین مرکزی مقرر تھے۔ وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری اشفاق محمود، اسی وزارت کے سابق سیکرٹری مرزا حامد حسن، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن اور آئی پی ایس کی سینئر ایسوسی ایٹ امینہ سہیل بھی شریک گفتگو تھیں۔

ماہرین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تھرکول کی ترقی کے مختلف جائزوں اور تخمینوں نے اس کی صلاحیت کو رجائیت پسندی کی بجائے مایوسی سے آشکار کردیا ہے جس کے نتیجے میں اس کی حقیقت پسندانہ تصویر دھندلا گئی ہے۔ مقررین نے یہ پہلو بدقسمتی یہ محمول قرار دیا کہ تھر کول کی ترقی ۹۰۰۰مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے کوئلے کے ذخائر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی مربوط ماسٹر پلان کے تحت مرتب نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی جامع سوچ کو اپنایا جائے جس میں کوئلے کی تلاش ، کان کنی کے مختلف طریقوں، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، زمین کے اوپر اور نیچے آبی ذخائر کی نوعیت اور دستیابی اور بجلی کی طلب جیسے عوامل اور ارضیاتی پہلوئوں پر نظر رکھی گئی ہو۔

مرزا طالب حسن نے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے کہاکہ تھرکول کی اہمیت اور استعداد پر پچھلی تین دہائیوں سے بحث جاری ہے اور ابھی تک ان وسائل سے استفادہ کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے اور اب اس پر مزید کوئی بھی مطالعہ (Study) اس کے مقاصد کو زک ہی پہنچائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر کیے گئے مطالعے کو سامنے رکھتے ہوئے فوری طور پر کھدائی اور تلاش کا عمل شروع کردینا چاہیے جبکہ اس پر چھان پھٹک کے دیگر عوامل کو ساتھ ساتھ جاری رکھا جاسکتا ہے۔

اشفاق محمود نے بھی تجربات اور مطالعوں پر مزید وقت برباد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دستیاب کان کنی کی سہولتوں کو ہنگامی بنیادوں پر بروئے کار لانا چاہیے چاہے اس کے لیے نجی سرمایہ کاروں کو شامل کرنا پڑے۔ انہوں نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے سرکاری شعبے کے ایک بھرپور منصوبے کے آغاز کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ طویل المیعاد پائیدار منصوبہ بندی کے لیے مقامی وسائل میں استعداد کاری بھی لازمی امر ہے۔

عثمان امین الدین کا کہنا تھا کہ گزشتہ بیس سالوں میں کئی مواقع پرتھرکول کے حوالہ سے سنجیدہ کام کا آغاز ہوا لیکن ذاتی مفادات، حکام میں عزم کی کمی اور بیوروکریسی کا سرخ فیتہ راہ میں حائل ہوا جس کے نتیجے میں اس پر پیش رفت رک گئی۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالدرحمن نے اس ضمن میں امین الدین کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خیال، فکر، وسائل اور ٹیکنالوجی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے لیکن حکام کی نیت اور ارادوں میں کمی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان مقامی وسائل کے اس انمول ذخیرے کو استعمال کرنے سے محروم ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے