سیمینار:’عسکریت کے خدشات، ماضی کا سبق اور درکار حکمتِ عملی’ | تقریبِ رونما‌ئی : دہشت گردی کے خلاف جنک’

سیمینار:’عسکریت کے خدشات، ماضی کا سبق اور درکار حکمتِ عملی’ | تقریبِ رونما‌ئی : دہشت گردی کے خلاف جنک’

خارجہ اوردفاعی پالیسی امور میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے  کی ضرورت  ہے: ماہرین

سابق سفیر  او ر ریاستی امور کے ماہررستم شاہ مہمند نے زور دیا ہے کہ افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کوخطے کے اندر ایک فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بالکل واضح ہےکہ افغانستان میں استحکام یا عدم استحکام پاکستان کو  براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اختلافات کو مزیدہوا دینے والے ماحول کی بجائے، پاکستان کو افغانستان کے حوالہ سے ایک مضبوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔  یہ وہ وقت ہے کہ اگر افغانستان ابھی بھی طویل عرصہ غیر مستحکم رہتاہے تو پاکستان کو خطے کے افق پر ابھرتے ہوئے خطرات کا اندازہ کرنے اور ان کے سدباب کے لیے آگے آنا چاہیے۔

وہ ”عسکریت کے خدشات، ماضی کا سبق اور درکار حکمت عملی“کے عنوان سے  21 ستمبر 2022 کو ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ آئی پی ایس پریس کے تحت شایع ہونے والی تازہ تصنیف   ”دھشت گردی کے خلاف جنگ: پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات“ کی تقریب رونمائی بھی سیمینار کا حصہ تھی۔ ’ارمغان خورشید سیریز‘ کے تحت شاءع ہونے والی یہ نویں کتاب حال ہی میں دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے جو  قومی اہمیت کے مختلف موضوعات پر ممتاز اسکالر، ماہر اقتصادیات، سیاسی رہنما اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے بانی چیئرمین اور اب سرپرست اعلیٰ  پروفیسر خورشید احمد کی تحریروں اور پارلیمانی تقاریرپر مشتمل ہے۔

اس سیمینار کی میزبانی قرطبہ یونیورسٹی، پشاور نے کی اور اس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اورقرطبہ ایجوکیشن سسٹم  کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اظہر خان نیازی نے مشترکہ طور پر کی۔  سیمینار سے خطاب کرنے والے دیگر افراد میں    ڈائریکٹر، پاکستان اسٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی  پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام ،ممتاز صحافی اور کالم نگار محمود جان بابر،   آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو  ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اور پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض خان، ڈین، قرطبہ یونیورسٹی شامل تھے۔

عالمی اور علاقائی منظرناموں کے درمیان افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پراپنی بصیرت افروز رائے کا اظہار کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے کہا کہ اگرچہ افغانستان کو اب چار دہائیوں سے زائد  جاری بیرونی حملوں ،جنگوں، عسکریت پسندی اور خانہ  جنگی کے بعد امن و استحکام کے نئے دور میں داخل ہونا چاہئیے تھا ، تاہم بدقسمتی سے ایسا جلد ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر موئثرافغان سفارت کاری کےفقدان، مالیاتی بحران اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جیسی غیر منطقی پالیسی ترجیحات نے افغانستان کی تشویشناک صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ڈاکٹر فخر الاسلام نے پروفیسر خورشید کی کتاب کے متعدد اقتباسات سناتے  ہوئے سامعین کو پروفیسر خورشید احمد کے کام اور جدوجہد سے آگاہ کیا۔ انہوں نےکہا کہ دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے حوالہ سے پاکستان کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کو سمجھنے کے لیے ایسے تحقیق کاروں کے لیے ایک تاریخی ماخذ ہے جواس بارے میں پارلیمانی اور سیاسی مباحث پر تحقیق کرنا چاہتے ہوں۔انہوں نے کتاب کے ایک باب میں مذکور سفارشات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ماہرین اور متعلقہ پالیسی سٹیک ہولڈرز کی رہنمائی میں دفتر خارجہ کے تحت  ہی تشکیل دی جانی چاہیے، جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہوپاتا۔

خالد رحمٰن نے زور دے کر کہا کہ خطرہ جو بھی ہو، اسے کم کرنے اور حل کرنے کے لیے اس کی بنیادی وجہ تلاش کرنی چاہیے۔ یہی معاملہ دہشت گردی کا بھی ہے جس کی ابھی تک  عالمی سطح پر کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ اس کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر  ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جن کے خطرناک مضمرات سامنے آئے اور جن کا بظاہر کوئی نتیجہ یا حل نظر نہیں آتا۔ اس طرح کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان عوامل پر پوری توجہ دیتے ہوئے ان کے تمام پہلوؤں کو خوب پرکھ لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ  دہشت گردی کے متعددعملی پہلو ہیں جو اس  میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں آپریٹر، سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ شامل ہیں ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ماسٹر مائنڈ کی شناخت اور اس سے نمٹنا ضروری ہےاور اس سے نمٹنے والی کسی بھی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جانا چاہیے۔

اظہر خان نیازی نے امریکہ کے تحت لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے لیے پاکستان کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے امریکی پالیسی کے ابہام کا سخت نتیجہ دیکھ لیا ہے، اب اسے اپنی خارجہ پالیسی اور پاک امریکہ تعلقات کو اپنی کامیابی کے  اصول پر مرتب کرنا ہوگا تاکہ قومی مفادات کو مقدم رکھا جا سکے۔

عسکریت پسندی کی تاریخ اور پاکستان کے تجربات پر توجہ دلاتے ہوئے محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ پالیسی سازوں کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اورایسی بیرونی اور اندرونی قوتوں کو شکست دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان میں عسکریت پسندی کو دوبارہ شروع کر نے اور عدم استحکام پیدا کرنے پر کام کر رہی ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے