صحت اور زراعت کے شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے معاشرتی بحالی

صحت اور زراعت کے شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے معاشرتی بحالی

پاکستان سالانہ ساڑھے چھ لاکھ ٹن کیمیائی کھادا ستعمال کر رہا ہے جو نہ صرف اس کی مٹی اور زیرِ زمین پانی کی سطح کو تباہ کررہی ہے بلکہ ماحولیاتی تباہی کا سبب بھی بن رہی ہے۔کھاد کے اس غلط استعمال نے برسوں کے دوران مٹی کے معیار کو متاثر کیا ہے  جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

 اس تشویش کا اظہار معروف کاروباری شخصیت اور قومی کمیشن  برائے انسانی ترقی (NCHD) کے رکن ڈاکٹر مبشر بھٹی نے 4 دسمبر 2020ء  کو ایک اجلاس میں کیا جس میں وہ ‘Community Rehabilitation through Reforming Agriculture and Health Sectors of Pakistan’ کے موضوع پر ہونے والی گفتگو میں پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور زراعت پر ان کے اثراتپر روشنی ڈال رہے تھے۔

  اس اجلاس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ شریکِ گفتگو افراد میں سابق صدر راولپنڈی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز  (RCCI)  امان اللہ خان،  اقتصادی پالیسی کے تجزیہ کار ظہیر الدین ڈار، ڈاکٹر عبد الصبور اور  جنرل مینیجرآئی پی ایس نوفل شاہ رُخ سمیت دیگرافراد شامل تھے۔

 موضوع پرہونے والی تفصیلی گفتگو میں بھٹی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا  کہ بیوروکریٹک  رکاوٹوں، حکومتی غفلت اور کیمیائی کھاد کی درآمد پر زیادہ توجہ کی وجہ سے  پاکستان  اپنی زراعت پر مبنی معیشت کو بڑھانے پر زیادہ توجہ نہیں دے پایا  ہے جس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اگلے دس سال میں 100  بلین ڈالر قومی خزانے میں شامل کر سکتی ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پیٹرو  ڈالروں یا  خیرات میں ملنے والےڈالروں کی  بجائے زراعت سے حاصل ہونے والے ڈالروں پر توجہ دے  کیونکہ انہوں نے پاکستان میں دسمبر  2021   تک 1000 بایو کھادکے یونٹ لگانے کا عزم کیا ہے جس سے ملک میں کیمیائی کھاد کی کھپت میں 20 سے25 فیصد کمی واقع ہوگی۔

 ڈاکٹر بھٹی کی رائے تھی کہ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے  عالمی سطح پر حلال فوڈ کی طلب میں اضافے سے ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔  حکومت کو چاہیے کہ وہ  چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں  (SMEs) کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ وہ عالمی سطح پر حلال خوراک کی معیشت کے شعبے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔  انہوں نے مزید کہا  کہ اسی طرح پاکستان خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے جو اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کے بعد اس کی دوسری سب سے بڑی درآمد ہے۔

 مبصرین نے بھٹی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ غذائیت کی حفاظت اور خوراک کا تنوع فوڈ سیکیورٹی کا لازمی جزو ہے لیکن پاکستان میں لوگ اس میدان میں لاحق خطرات سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے ملک کی زرعی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ  پائیدار معاشی ترقی کے لیے مائیکروسطح پر  مداخلتوں کی ضرورت ہے جو کہ فوڈ سیکورٹی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے